قبائلی عمائدین کی مدد سے پاکستان، افغانستان کا جنگ بندی پر اتفاق
خیبر پختونخوا میں سرحد پر 4 روز تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد پاکستان اور افغانستان کے قبائلی عمائدین اور حکام پر مشتمل ایک جرگے نے جنگ بندی پر اتفاق کرلیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعہ کو پاکستان اور افغانستان کی افواج کے درمیان جھڑپوں میں اضافے کے باعث کرم میں خرلاچی بارڈر کراسنگ کے قریب دیہاتوں اور بستیوں سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع ہوگئی تھی۔
ہفتے کو ہونے والی جنگ بندی سے علاقے میں امن بحال ہوا، اور سرحدی گزرگاہ بھی جلد ہی دوبارہ کھول دی جائیں گی۔
قبائلی بزرگ جلال بنگش نے ڈان کو بتایا کہ جرگہ خرلاچی بارڈر کراسنگ پر منعقد ہوا اور اس میں دونوں اطراف کے مقامی عمائدین، علما اور حکام نے شرکت کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اجلاس میں علاقے میں قیام امن کے لیے کوششیں کرنے کے لیے ایک مشترکہ امن کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہیے۔
جرگے نے تنازعات کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔
جلال بنگش نے کہا کہ سرحد کے دونوں طرف لوگوں کو درپیش مسائل کے پیش نظر جرگے کے شرکا نے جنگ بندی پر عمل درآمد پر اتفاق کیا اور اس وجہ سے کراسنگ کو بغیر کسی تاخیر کے کھول دیا جائے گا۔
دونوں فریقین نے جلد ہی ایک اور ملاقات کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ جھڑپوں کے باعث علاقے سے نکل ماکنی کرنے والے کچھ مقامی لوگ امن معاہدے کے بعد واپس آ گئے ہیں۔
ایک مقامی شاہ نواز نے بتایا کہ اس ہفتے کے شروع میں ہونے والی جھڑپوں کی وجہ سے رہائشیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، سرحدی علاقوں میں اسکول بند رہے اور سرحد پار تجارت بھی معطل رہی۔
اگرچہ ضلعی انتظامیہ یا انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کی جانب سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا، تاہم فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔
جمعہ کو اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ سے بار بار افغان سرحد کی صورتحال کے بارے میں پوچھا گیا۔
تاہم، جھڑپوں کے بارے میں کوئی خاص معلومات پیش کرنے کے بجائے انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان اپنی سلامتی اور خودمختاری کو لاحق کسی بھی خطرے کے خلاف اپنے دفاع کے لیے تیار ہے۔