• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm

شمسی توانائی سے گھریلو بجلی کی پیداوار اور نیٹ میٹرنگ پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت

شائع May 20, 2024

ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ 13 ہزار گھر ایسے ہیں جن کی چھتوں پر شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے آلات نصب ہیں جبکہ یہ گھر اپنے متعلقہ بجلی تقسیم کار سے بجلی بھی لیتے ہیں اور شمسی توانائی کی اضافی بجلی تقسیم کار کو واپس بھی کرتے ہیں۔ اس کے لیے نیٹ میٹرنگ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ ہم انہیں بجلی کی ’تقسیم شدہ پیداوار‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔

یہ مجموعی طور پر ملک کے صرف 0.3 فیصد گھرانے ہیں۔ نیٹ میٹرنگ والے گھروں میں بڑی پیداوار والے سولر سسٹمز نصب ہیں جو 5 کلو واٹ سے زائد توانائی پیدا کرتے ہیں۔ یہ معاشرے کے زائد مراعات والے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن کا شمار ایسے طبقے میں ہوتا ہے جن کا بجلی کا استعمال زیادہ ہے۔

گزشتہ کچھ دنوں سے ہم یہ مطالبات سن رہے ہیں کہ نیٹ میٹرنگ کی قیمت میں تبدیلی لائی جائے۔ یعنی سولر سسٹمز سے پیدا ہونے والی اضافی بجلی جو تقسیم کار کو بیچ دی جاتی ہے، اس کی قیمت۔ کچھ لوگوں کو تشویش ہے کہ قیمتوں پر ممکنہ نظرثانی، متوسط طبقے پر حملے کے مترادف ہے۔

پاکستان جیسے بدحال معیشت والے ملک میں 0.3 فیصد گھروں میں نیٹ میٹرنگ کے کنکشنز ہیں جو ظاہر ہے متوسط آمدنی والے گھروں میں نہیں بلکہ اشرافیہ کے گھروں میں ہیں۔ یہ لوگ تسلیم نہیں کرتے کہ وہ اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ملک میں اگر دولت اور آمدنی کی تقسیم کو دیکھا جائے تو انہیں نمایاں برتری حاصل ہے۔

نیٹ میٹرنگ کی موجودہ قیمت 22 روپے فی کلوواٹ گھنٹہ ہے جوکہ ایندھن کی اوسط لاگت (9 روپے فی کلوواٹ گھنٹہ) سے کئی زیادہ ہے۔ ایک ایسے منظر نامے میں جہاں اضافی پیداواری صلاحیت دستیاب ہے تو اتنی زیادہ قیمت پر شمسی توانائی پیدا کرنے والے گھروں کے ذریعے بجلی پیدا کرنا عقل کا تقاضا نہیں۔ اسی طرح شمسی توانائی پیدا کرنا بھی بےمعنیٰ ہے کہ جس کی لاگت اوسط پیداواری لاگت سے زیادہ ہو۔

گھرانوں کی جانب سے بجلی کی زیادہ قیمت ادا کی جاتی ہے کیونکہ اس میں مختلف اخراجات جیسے استعمال اور پیداواری صلاحیت کی لاگت، ترسیل اور تقسیم کی لاگت، نقصان اور بہت سا ٹیکس شامل ہے۔ اس سے بجلی کی طلب میں کمی آئی ہے جبکہ ساتھ ہی بہت سے مسائل نے بھی سر اٹھایا ہے۔ سب کو ایک ہی ٹیرف پر بجلی دینا اچھی پالیسی نہیں کیونکہ اس سے نقصان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ایسی پالیسی جو اعلیٰ طبقے کو نچلے طبقے کی طرح سبسڈی دے، نقصان دہ ہے۔

موجودہ بجلی کی قیمتوں کا تعین اضافی لاگت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ بجلی کے پیدا کردہ یونٹس میں پیداوار اور ترسیل کے اثاثوں پر کیپسٹی چارجز کو شامل کیا جاتا ہے۔ ترجیحی بنیادوں پر اس میں ترمیم کی ضرورت ہے۔

چونکہ نیٹ میٹرنگ کے نتیجے میں گرڈ سے طلب میں کمی واقع ہوتی ہے، اس لیے پیدا ہونے والی بجلی کے بقیہ یونٹس میں زیادہ لاگت آتی ہے جس کی ادائیگی گرڈ پر موجود دیگر صارفین کرتے ہیں۔

گرڈ پر موجود غیراستعمال شدہ بجلی کی قیمت دیگر صارفین ادا کرتے ہیں
گرڈ پر موجود غیراستعمال شدہ بجلی کی قیمت دیگر صارفین ادا کرتے ہیں

یہاں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جب سورج کی روشنی نہیں ہوتی یا شمسی توانائی میں کمی واقع ہوتی ہے تو وہ گھرانے بھی گرڈ کی بجلی استعمال کرتے ہیں جن کی چھتوں پر سولر پینل نصب ہیں۔ ان گھروں کے لیے گرڈ کی بجلی بیک اپ یا بجلی کی فراہمی کا ثانوی ذریعہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ زور دیتے ہیں کہ انہیں بیک اپ کی مناسب قیمت ادا کرنی چاہیے۔

نیٹ میٹرنگ کی قیمت زیادہ رکھنے کے حق میں بولنے والے لوگ دلیل دیتے ہیں کہ ان گھروں نے سولر پینل لگانے اور شمسی توانائی پیدا کرنے کے آلات میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اسی لیے انہیں اپنی سرمایہ کاری کی کسی حد تک قیمت ملنی چاہیے۔

موجودہ نیٹ میٹرنگ کی قیمت تقریباً 22 روپے فی کلو واٹ گھنٹہ ہے جو تقریباً 9 روپے فی کلو واٹ فی گھنٹہ کی ایندھن کی اوسط قیمت سے بہت زیادہ ہے۔

حکومت آخر نقصان کم کرنے یا ادائیگی کی ضمانت کیوں دے گی جب اس متعلق کوئی معاہدہ منظرعام پر نہیں آیا۔ حتیٰ کہ تقسیم کار اور متعلقہ گھر کے درمیان طے پانے والا پیداوار کی تقسیم کا معاہدہ بھی کہتا ہے کہ نیٹ میٹرنگ کے ٹیرف میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ ٹیرف میں کوئی بھی ترمیم معاشی صورتحال کے مطابق کرنی چاہیے بجائے اس کے کہ گھروں کی محدود تعداد کو ادائیگی کی مدت کی ضمانت دی جائے۔

نیٹ میٹرنگ کی قیمتوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے کسی بھی پالیسی کو احتیاط سے ڈیزائن کیا جانا چاہیے جبکہ اس میں سماجی-اقتصادی حقائق کو بھی مدِنظر رکھا جائے۔ نیٹ میٹرنگ کے صارف کے لیے گرڈ بجلی کی فراہمی کا ثانوی ذریعہ ہوتا ہے اسی لیے انہیں مناسب بنیادوں پر پیداواری صلاحیت کی ادائیگی میں بھی حصہ ڈالنا چاہیے۔ ہر گھر میں کلوواٹ کے مطابق ایک مقررہ لاگت مختص کرنے سے بھی یہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

صرف وہ گھر جن کے پاس 5 کلو واٹ یا اس سے زائد کے سولر پینل نصب ہیں، انہیں اس ڈھانچے میں شامل کیا جاسکتا ہے جس میں نصب شدہ سسٹم پر ٹیرف کا ایک جزو مختص کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح نیٹ میٹرنگ کی قیمت کو اوسط پیداواری لاگت کے ساتھ منسلک کیا جا سکتا ہے جسے مجموعی لاگت میں تبدیلی کے ساتھ ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہو۔

نیٹ میٹرنگ کے صارف کے لیے گرڈ، بجلی کی فراہمی کا ثانوی ذریعہ ہوتا ہے
نیٹ میٹرنگ کے صارف کے لیے گرڈ، بجلی کی فراہمی کا ثانوی ذریعہ ہوتا ہے

اس طرح کے طریقے اپنا کر گرڈ کے نقصانات کو کم کیا جاسکتا ہے اور کم آمدنی والے گھرانوں کو جو زائد قیمتیں ادا کرنی پڑ رہی ہیں ان میں بھی کمی آئے گی۔ تجارتی اور صنعتی صارفین کی طرف سے فراہم کردہ کراس سبسڈی سے دیگر صارفین کے زمرے بھی مستفید ہوتے ہیں، اس طرح اس عمل میں بھی کمی آسکتی ہے۔

ایسی پالیسی کو تقسیم شدہ توانائی میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے اور ان لوگوں پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے جو بجلی کے لیے صرف گرڈ پر انحصار کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں گرڈ کو اضافی بجلی کی فراہمی کی صلاحیتوں میں اضافہ اور سولر پینلز کی کم ہوتی قیمتوں کے باعث لوگوں کا جھکاؤ شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار کی طرح بڑھتا جائے گا۔

اسی طرح اگر بجلی اسٹور کرنے کی لاگت میں کمی واقع ہوگی تو لوگوں کے لیے گرڈ سے بجلی نہ لینا سستا پڑے گا۔ کوئی بھی پالیسی جو ذخیرہ اندوزی اور پیداواری لاگت کو کم کرنے کے بدلتے ہوئے معاشی حقائق پر توجہ نہیں دے گی، تو اس سے مستقبل میں گرڈ کے نقصانات میں اضافہ ہوگا۔ پالیسی بناتے ہوئے ہمیں مستقبل کو مدنظر رکھنا چاہیے جہاں چند ہزار گھرانوں کے مفادات کو پورا کرنے کے بجائے ہر گھر کو بجلی مناسب قیمت پر دستیاب ہو۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عمار ایچ خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 18 نومبر 2024
کارٹون : 17 نومبر 2024