کراچی میں 17 افراد کی فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگ میں کالعدم ’زینبیون‘ کے ملوث ہونے کا انکشاف
محکمہ انسداد دہشت گردی(سی ٹی ڈی) کے سربراہ ڈی آئی جی آصف اعجاز شیخ نے کراچی میں فرقہ ورانہ بنیادوں پر قتل کی وارداتوں میں کالعدم دہشت گرد تنظیم ’زینبیون‘ کے ملوث ہونے کا انکشاف کیا ہے جس نے ستمبر 2023 سے فروری 2024 کے دوران 17 افراد کو فرقہ ورانہ بنیادوں پر قتل کیا۔
محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈی آئی جی آصف اعجاز شیخ نے جمعرات کو اپنے دفتر میں راجا عمر خطاب سمیت دیگر سینئرز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی میں 2023 کے آخری چند مہینوں اور اس سال 2024 کے آغاز میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا اور ظاہر ہے کہ ان ہلاکتوں کی وجہ ڈکیتی میں مزاحمت معلوم ہوتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی نے ان ہلاکتوں کی تحقیقات شروع کیں تو یہ بات سامنے آئی کہ ستمبر 2023 سے 21 فروری 2024 تک تقریباً 17 افراد کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر گولی مار کر قتل کیا گیا جبکہ اس کے علاوہ اسٹریٹ کرائمز اور دیگر عوامل کی وجہ سے قتل کے واقعات بھی رونما ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ تکنیکی شواہد اور فارنزک کی مدد سے یہ بات سامنے آئی کہ ان فرقہ وارانہ قتل میں کالعدم گروہ ’زینبیون‘ ملوث ہے اور اس گروپ کے ماسٹر مائنڈ کی شناخت سید حسین موسوی عرف مسلم کے نام سے ہوئی ہے جو بیرون ملک مقیم ہے اور ٹارگٹ کلنگ کے لیے فنڈز اور دیگر سہولتیں فراہم کرتا ہے۔
سی ٹی ڈی کے سربراہ نے کہا کہ اس کالعدم گروہ کا طریقہ کار یہ تھا کہ ان کا ماسٹر مائنڈ اپنی ٹیم کو ٹارگٹ کی تصویر اور دیگر معلومات فراہم کرتا تھا، پھر ٹارگٹ کا پیچھا کر کے ماسٹر مائنڈ کو تمام متعلقہ معلومات فراہم کی جاتیں جس کے بعد وہ یہ معلومات اپنی ٹارگٹ کلنگ ٹیم کے ارکان کو قتل کرنے کے لیے فراہم کرتا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ انسداد دہشت گردی فورس کی تحقیقات کے دوران 21 فروری 2024 کے بعد فرقہ واریت سے منسلک ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں رک گئی تھیں، قتل کرنے والوں سے جیل میں پوچھ گچھ کی گئی اور گرفتار ملزمان کی شناخت وقار عباس اور حسین اکبر کے نام سے ہوئی ہے جنہیں غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
آصف اعجاز شیخ نے کہا کہ تمام قانونی ضابطوں کو پورا کرنے کے بعد ان گرفتار ملزمان کو سی ٹی ڈی تفتیش کے لیے جیل سے لے گئی اور دوران تفتیش ان کی نشاندہی پر ٹارگٹ کلنگ میں استعمال ہونے والا غیر قانونی اسلحہ برآمد ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ تفتیش کے دوران مزید انکشاف ہوا کہ ٹارگٹ کلنگ میں ملوث افراد کی تین ٹیمیں تھیں، ان ٹیموں کے تمام ارکان کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا لیکن ملزمان کی گرفتاری کے بعد ان کے ساتھی انڈر گراؤنڈ ہو گئے جبکہ ان کی ایک ٹیم جاسوسی میں بھی ملوث تھی۔
سی ٹی ڈی کے ڈی آئی جی نے کہا کہ یہ عسکریت پسند ایک خاص فرقے کے افراد کو نشانہ بناتے ہیں جس سے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ ممکنہ حریف فرقے کے ارکان کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
سی ٹی ڈی کے سربراہ نے مزید کہا کہ اس نیٹ ورک نے تقریباً 15 کی جاسوسی مکمل کر کر کے انہیں قتل کرنے کے لیے ان کے ماسٹر مائنڈ کو بیرون ملک تمام معلومات بھیجیں تاہم سی ٹی ڈی وی کی کارروائیوں کی وجہ سے فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل کی وارداتوں کو روکنے میں کامیاب حاصل ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ تفتیش کے دوران اس نیٹ ورک کی جانب سے شیر محمد، قیصر فاروق، عدنان شمیم، معراج نور، حماد اسامہ، محمد سلیم، حبیب رحمٰن، شعیب، سیف رحمٰن، محمد ایوب، عبدالباری، سعد فاروق کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل کیے جانے کا انکشاف ہوا جبکہ محمد یامین اور 11 کے قریب دیگر افراد زخمی ہوئے۔
سی ٹی ڈی سربراہ نے کہا کہ اس نیٹ ورک کے کے لیے ٹارگٹ کلنگ اور جاسوسی کرنے والوں میں سید صہیب عباس عرف وقار گلگتی، حیدر گلگتی، حیدر عرف راجو، عابد، اختر عرف بوٹ والا، کمیل بخاری، عباس عرف مرتضیٰ، مجتبیٰ، کوڈ نام گولڈ عرف اور الیاس گولڈن، سلیمان گلگتی، علی عرف پمفلٹ، کوڈ نام موڈ، بلال، بلال گلگتی، فیصل گلگتی، کوڈ نام جھمپیر، محمد، ابراہیم، چھوٹا ماموں، بڑا ماموں، ارشد، آفاق حیدر رضوی اور کوڈ نام عثمان شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس نیٹ ورک کی ٹارگٹ کلنگ ٹیم ظفر گلگتی، انعام گلگتی، عقیل گلگتی اور محمد علی گلگتی پر مشتمل ہے۔
دوران تفتیش ٹارگٹ کلنگ میں استعمال ہونے والا اسلحہ، موٹر سائیکلیں اور سراغ رسانی میں استعمال ہونے والے آلات برآمد کر لیے گئے۔
اس موقع پر ڈی آئی جی سی ٹی ڈی نے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ جن دو مشتبہ افراد کو پوچھ گچھ کے لیے جیل سے لے جایا گیا وہ اہم ’ٹارگٹ کلرز‘ تھے اور اہل سنت والجماعت کے ارکان کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھے جبکہ انہوں نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر 13 افراد کو قتل اور 11 دیگر کو زخمی کرنے کا ’اعتراف‘ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اہل سنت والجماعت کے ارکان کے قتل کے بعد سی ٹی ڈی انچارج مظہر مشوانی اور ان کی ٹیم کو ایک ٹاسک دیا گیا تھا جنہوں نے ان ہلاکتوں کے پیچھے ’زینبیون‘ گروپ کے ملوث ہونے کا پتا لگایا۔
اس موقع پر سی ٹی ڈی کے سینئر عہدیدار راجا عمر خطاب نے کہا کہ کراچی میں ستمبر 2023 سے فرقہ وارانہ قتل و غارت گری نے سر اٹھایا اور پتا چلا کہ ان ہلاکتوں کے پیچھے ایک گروہ کا ہاتھ ہے جس کے ارکان گلگت سے آتے ہیں اور ٹارگٹ کلنگ کرنے کے بعد واپس لوٹ جاتے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ زینبیون بریگیڈ غیر ملکی ایجنسیوں کی طرح کام کرتی ہے، ہم اسے ’فرقہ وارانہ دہشت گردی‘ قرار دیتے ہیں کیونکہ اس میں صرف ایک گروہ ملوث ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈی آئی جی آصف اعجاز شیخ نے کہا کہ سی ٹی ڈی میں ’خود احتسابی‘ اور کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی جاری ہے اور اب تک 14 اہلکاروں کو نوکریوں سے فارغ کیا جا چکا ہے جبکہ 100 سے زیادہ پولیس اہلکاروں کو مدت ملازمت میں کمی سمیت مختلف سزائیں دی گئی ہیں۔