لڑکیوں کو ماڈلنگ میں نہیں آنا چاہیے، ڈیزائنر ماریہ بی
معروف فیشن ڈیزائنر ماریہ بی نے کہا ہے کہ ماڈلنگ بہت مشکل فیلڈ ہے، اس لیے ہر لڑکی کو ماڈلنگ میں آنا بھی نہیں چاہئیے۔
ماریہ بی حال ہی میں حافظ احمد کے پوڈکاسٹ میں شریک ہوئیں، جہاں انہوں نے فیشن اور ماڈلنگ انڈسٹری سمیت دوسرے معاملات پر کھل کر گفتگو کی۔
پوڈکاسٹ کے دوران جب ان سے ماڈلز کی کمائی اور فیس سے متعلق سوال کیا گیا تو فیشن ڈیزائنر نے دعویٰ کیا کہ ملکی ماڈلز کے برعکس غیر ملکی ماڈلز سستی پڑتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر ماڈلز زیادہ ہیں، اس لیے وہاں مقابلہ بھی زیادہ ہوتا ہے لیکن پاکستان میں ماڈلز کم ہیں تو اس لیے یہاں مقابلہ نہیں ہوتا، جس وجہ سے ملکی ماڈلز مہنگی پڑتی ہیں۔
فیشن ڈیزائنر کے مطابق ماڈلز کو گھنٹوں اور یومیہ کے حساب سمیت فی جوڑا تشہیر کے پیسے دیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انہیں درست طریقے سے علم نہیں کہ غیر ملکی ماڈلز کو کتنا معاوضہ فراہم کیا جاتا ہے، کیوں کہ ان کے اس طرح کے معاملات پبلک ریلیشنز (پی آر) کے لوگ دیکھتے ہیں۔
ماریہ بی کے مطابق غیر ملکی ماڈلز کو یومیہ کم سے کم 500 امریکی ڈالرز مل جاتے ہیں جب کہ پاکستانی ماڈلز اس سے زیادہ مہنگی پڑتی ہیں۔
انہوں نے اسی معاملے پر مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ ماڈلنگ بہت مشکل فیلڈ ہے، پاکستان میں اس فیلڈ میں لوگ کم ہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر لڑکی کو ماڈلنگ میں آنا بھی نہیں چاہئیے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ماڈلنگ انڈسٹری کے فوٹوگرافرز کے ساتھ جن ماڈل لڑکیوں کی سیٹنگ ہوتی ہے یا وہ ان کے ساتھ کام کرنے میں کوئی پریشانی محسوس نہیں کرتیں تو ٹھیک ہے، ورنہ بہت ساری ماڈلز فوٹوگرافرز کے رویوں سے نالاں رہتی ہیں۔
ماریہ بی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں لڑکیوں کے ساتھ ساتھ مرد ماڈلز کے لیے بھی ماڈلنگ مشکل فیلڈ ہے جب کہ ملک میں والدین ہر لڑکی کو اس فیلڈ میں جانے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔
انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ماڈلنگ کی فیلڈ میں مرد اور خواتین ماڈلز کے ساتھ عجیب عجیب چیزیں بھی ہوتی ہیں، تاہم انہوں نے اس متعلق مزید وضاحت نہیں کی۔