• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

سپریم کورٹ: جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرری پر1 ماہ میں پیش رفت رپورٹ طلب

شائع May 15, 2024
سپریم کورٹ نے یونیورسٹیز سے بجٹ کی تفصیلات مانگ لیں — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ نے یونیورسٹیز سے بجٹ کی تفصیلات مانگ لیں — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے سرکاری جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرری پر ایک ماہ میں پیشرفت رپورٹ مانگ لی۔

سپریم کورٹ میں ملک بھر کی سرکاری یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلر کی تعیناتیوں کے معاملے پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

دوران سماعت ہائر ایجوکیشن کی جانب سے ملک بھر کی یونیورسٹیوں سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی۔

عدالت میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں کل 154 سرکاری یونیورسٹیاں ہیں، 66 یونیورسٹیوں میں یا وائس چانسلر کیلئے اضافی چارج دیا گیا ہے یا عہدے خالی ہیں، وفاقی دارالحکومت کی 29 یونیورسٹیوں میں سے 24 پر مستقل وائس چانسلر تعینات ہیں اور 5 خالی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ بلوچستان کی 10 یونیورسٹیوں میں سے 5 میں وائس چانسلرز تعینات ہیں اور 5 میں ایکٹنگ وی سی موجود ہیں، کے پی کی 32 سرکاری یونیورسٹیوں میں سے 10 پر مستقل وی سی موجود ہیں، 16 جامعات پر اضافی چارج دیا گیا ہے اور 6 خالی ہیں، پنجاب کی 49 سرکاری یونیورسٹیوں میں سے 20 پر مستقل اور 29 پر قائمقام وی سی موجود ہیں، سندھ کی 29 سرکاری یونیورسٹیوں میں سے 24 پر مستقل اور 5 پر اضافی چارج پر وی سی تعینات ہیں۔

جس طرح پی آئی اے میں تباہی ہوئی، اسی طرح یونیورسٹیوں میں بھی ہورہی ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ محکمہ تعلیم میں بیٹھے افسران کیا مکھیاں مار رہے ہیں، یونیورسٹیاں پاکستان کا مستقبل ہیں، منظم طریقے سے پاکستان کے مستقبل کو تباہ کیا جارہا ہے، اس ملک میں سب کچھ آہستہ آہستہ زمین بوس ہورہا ہے، ٹی وی چینلز میں بیٹھ کر سیاسی مخالفین کا غصہ نظر آتا ہے لیکن تعلیم کے معاملے پر ٹی وی چینلز میں کوئی پروگرام نہیں ہوتے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر کوئی گالم گلوچ کے اعدادوشمار جاری ہوں تو پاکستان پہلی پوزیشن پر آئے گا، کچھ لوگ سکولوں کو تباہ کر کے کہہ رہے ہیں ہم اسلام کی خدمت کررہے ہیں جب کہ سکولوں کو تباہ کرنے والے ایسے لوگوں سے حکومتیں پھر مزاکرات بھی کرتی ہیں، جس طرح پی آئی اے میں تباہی ہوئی اسی طرح یونیورسٹیوں میں بھی تباہی ہورہی ہے۔

سپریم کورٹ نے یونیورسٹیز سے بجٹ کی تفصیلات مانگ لیں

سپریم کورٹ میں مختصر وقفہ کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو عدالت نے پوچھا کہ آگاہ کیا جائے یونیورسٹیز سرکار سے کتنا بجٹ لے رہی ہیں؟ سرکاری جامعات میں اکیڈیمک اور نان اکیڈیمک عملے کی تناسب کی تفصیلات بھی طلب کرلی گئیں۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سندھ حکومت کو نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کی معاونت کیلئے نوٹس جاری کیا گیا تھا بطور فریق نہیں، کیا آپ کو عدالتی معاونت سے متعلق رول 27 اے کا علم ہے؟

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ سپریم کورٹ رولز کے سیکشن 27 اے سے لاعلم نکلے جس پر دوران سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی سخت سرزنش کی گئی۔

چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو بنیادی بات کا ہی علم نہیں، سندھ کیلئے دعا ہی کرسکتے ہیں، آپ نے قانون کی تعلیم کہاں سے حاصل کی اور کبھی کوئی کیس چلایا ہے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ لاہور سے قانون کی ڈگری لی اور کراچی میں بھی پریکٹس کرتا رہا ہوں، 4 سال بطور اسسٹنٹ اٹارنی جنرل بھی کام کیا ہے۔

خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ صوبے میں 19 جامعات کے وائس چانسلر کی تعیناتی کا عمل جاری ہے، ہائی کورٹ کے حکم امتناع اور نگران حکومت کے انکار کے باعث تاخیر ہوئی، ہر جامعہ کے وی سی کیلئے تین تین نام فائنل کیے گئے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جو نام فائنل کیے ہیں وہ کہاں ہیں؟ کے پی حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ نام پبلک نہیں کیے گئے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عوام سے کیا دشمنی ہے جو نام چھپائے جا رہے ہیں، کیا یہ ایٹمی کوڈز ہیں یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہوگی نام سامنے آ گئے تو؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہ لیتے ہیں اور انہی سے معلومات چھپائی جا رہی ہیں، ہر جگہ اپنا بندا فٹ کرنے کیلئے ہی چیزوں کو خفیہ رکھا جاتا ہے، کسی ایم پی اے کا چاچا ماما یا بھائی کو لگانا ہوگا۔

وکیل کے پی حکومت نے کہا کہ 19 جامعات کے وائس چانسلرز کیلئے نام گورنر کو بھجوا دیے ہیں جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گورنر کیا اتنے مصروف ہیں کہ ناموں پر فیصلے کا وقت نہیں مل رہا، گورنر کے پی تو خیر ابھی نئے تعینات ہوئے ہیں۔

ملک میں کوئی ایک سرکار بھی ٹھیک نہیں چل رہی، چیف جسٹس

درخواست گزار عمر گیلانی نے عدالت کو بتایا کہ یونیورسٹیز میں ضرورت سے زیادہ عملہ موجود ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پی آئی اے میں بھی ضرورت سے زیادہ عملہ تھا آج حال دیکھ لیں کیا ہوا، سرکاری جامعات کا بھی پی آئی اے والا حال کیا جا رہا ہے، آج پی آئی اے ختم کر رہے کل یونیورسٹیز کیساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بدقسمتی سے ہر غلط کام بیوروکریسی کی ملی بھگت سے ہوتے ہیں، ملک میں کوئی ایک سرکار بھی ٹھیک نہیں چل رہی، لگتا ہے ہم کسی دشمن ملک میں بیٹھے ہوئے ہیں، صرف تعلیم کا شعبہ ٹھیک کر دیں پورا ملک ٹھیک ہو جائے گا۔

دوران سماعت عدالت نے لاہور اور پشاور ہائی کورٹس کی جانب سے حکم امتناع پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالتیں جامعات میں تعیناتی کے حوالے سے کیسز جلد نمٹائیں اور یقینی بنائیں کہ وہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں حصہ نہ بنیں۔

بعد ازاں، سپریم کورٹ نے سرکاری جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرری پر ایک ماہ میں پیشرفت رپورٹ مانگ لی جب کہ کنٹرولر امتحانات اور ڈائریکٹر فنانس کی خالی آسامیوں کی تفصیلات بھی پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024