اپوزیشن غیر سنجیدہ، منافقت کی سیاست کرتی ہے، بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ اپوزیشن غیر سنجیدہ ہے، یہ منافقت کی سیاست کرتی ہے۔
قومی اسمبلی اجلاس میں خطاب کے دوران ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ سویلین صدر نے اس ایوان میں ساتویں بات خطاب کیا، صدر زرداری نے کوئی سیاسی یا ذاتی بات نہیں کی بلکہ انہوں نے واضح کیا کہ وہ وفاق اور عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کے مسائل کو ترجیح دیتے ہیں، انہوں نے تقریر میں اتحاد کی بات کی، ڈائیلاگ کی بات کی، یہ سب اپنی ذاتی مفاد کے لیے نہیں کیا وہ اس لیے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان کے مسائل جیسے غربت،مہنگائی جیسے مسائل کا حل نکالنا ہے تو سیاسی پروسس، ڈائیلاگ کے بغیر یہ نا ممکن ہے۔
بلاول بھٹو نے بتایا کہ اپوزیشن کی ذمہ داری ہے کہ ناصرف اپنے ذاتی مسائل پر رونا دھونا کرے بلکہ پاکستان کے عوام پر بھی بات کریں،جہاں ان کا حق وہ جمہوری انداز میں احتجاج کریں لیکن عوام کے مسائل کے حل کے لیے کام کرنا ان کا فرض ہے، میں بجٹ پر اپوزیشن اور حکومت کو تجویز دوں گا کہ اپوزیشن کا اس میں ان پٹ ہونا چاہیے، جب پاکستان معاشی بحران سے گزر رہا ہے تو شاید اپوزیشن اپنی ذمہ داری بھول گئے ہیں تو ہم ان کو یاد دلائیں کہ جو پیسے ان کو ایوان سے مل رہے ہیں وہ اس کو حلال کریں، بجٹ اور پارلیمان میں اپنا کردار ادا کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر زرداری کی تقریر تو بہت چھوٹی تھی مگر قائد حزب اختلاف کی تقریر ایک گھنٹے کی تھی جس میں 90 فیصد انہوں نے اپنا رونا دھونا کیا، اپنے بہادر خان صاحب کا رونا دھونا کیا جو دو تین مہینے جیل میں رہ کر تنگ آگئے ہیں، اور جو ان کی ذمہ داری بحیثیت قائد حزب اختلاف کے عوام کے مسائل کو اٹھائیں انہوں نے یہ ذمہ داری پوری نہیں کی۔
بلاول بھٹو کے مطابق صدر زرداری نے تقریر میں صحت اور تعلیم کے شعبے کی بات کی، پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے دونوں شعبوں میں تاریخی کام کیا، ہم نے کراچی سمیت تمام بڑے شہروں میں دل کے مفت ہسپتال کھولے، انہوں نے تعلیم کے حوالے سے بھی تقریر میں ذکر کیا اس میں بھی ہم نے کوشش کی کہ تعلیم میں اسٹرکچرل مسئلے ہیں ان کو حل کرنے کے لیے بہت کام کروائے جو کامیاب ہوئے ہیں۔
سابق وفاقی وزیر نے بتایا کہ صدر زرادری نے ملک کے اندر عوامی مسائل پر بات کی مگر ساتھ ساتھ پاکستان کا جو مؤقف ہے کشمیر اور فلسطین کے مسئلے پر اس کو بیان کیا، میں مذمت کرنا چاہوں گا کہ جس وقت صدر اس ایوان میں کشمیر اور فلسطین پالیسی کو پاکستان کے سامنے رکھ رہے تھے اور جو غیر ملکی سفارتکار تھے ان کے سامنے بیان کر رہے تھے تو اپوزیشن والے سیٹیاں بجا رہے تھے، شور شرابہ کر رہے تھے تو وہ کیا پیغام بھیج رہے تھے سب کو؟ کیا ان کا ذاتی رونا دھونا پاکستان کے مسائل سے زیادہ اہم ہے؟ وہ اپنے مسئلوں کو ترجیح دیتے ہیں ان اہم مسئلوں کو ترجیح نہیں دیتے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ آزاد کمشیر میں جو مسئلہ چل رہا تھا اس پر صدرزرداری کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے جلد اس بات کا نوٹس لیا اور میں حکومت وقت کا بھی شکرگزار ہوں کہ انہوں نے مطالبات مانتے ہوئے کشمیر پیکج کا اعلان کیا، اس وقت پاکستان کے کسان سندھ اور پنجاب میں سراپا احتجاج ہیں اور ہم سب جماعتوں کا منشور ہے کہ پاکستان کی زراعت اس ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، اگر کشمیر ہماری شہ رگ ہے تو ہمارے ملک کی شہ رگ کسان ہیں، اس معاملے پر سب سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر ہونا چاہیے، جو کسان کا معاشی قتل جاری ہے اس کا احتساب ہونا چاہیے کہ جو عبوری حکومت میں فیصلہ لیا گیا اور پاکستان کی عوام کا پیسہ دوسرے ممالک کو دیا گیا اور گندم درآمد کروائی گئی تو اس سے معیشت کو نقصان ہوا اور پیسہ ضائع ہوا اور ان کا نقصان آگے جا کر ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم حکومت وقت سے درخواست کرتے ہیں کہ کمیٹی کمیٹی کھیلنا بند کریں، اگر ہم معاشی ترقی چاہتے ہیں، اگر کسانوں کو ترقی کرتے دیکھنا چاہتے ہیں تو کل نہیں آج یکشن لینا پڑے گا، اب حکومت کو فیصلہ لینا چاہیے اس میں دیر نہیں ہونا چاہیے یہ مانتے ہوئے کہ یہ نقصان کسانوں کو اپنی وجہ سے یا دنیا کے معاشی حالات کی وجہ سے نہیں ہوئے لیکن یہ نقصان نالائق، غیر جمہوری لوگوں کے فیصلے کی وجہ سے ہورہا ہے، حکومت کو فورا کسانوں کی مدد کا فیصلہ کرنا چاہیے، ایکسپورٹ پر پابندی ہٹائی جائے تاکہ کسان بھی کما سکے اور معیشت کو بھی فائدہ ہو۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ فلسطین میں ظلم ہورہا ہے، وہاں گندم بھیجی جائے مگر پاکستان کے کسانوں سے گندم خریدیں اور ان پر ظلم بند کیا جائے، ان فیصلوں کی وجہ سے یہ نا ہو کہ اگلے سال کسان کم فصل پیدا کرے، ہم سب مانتے ہیں کہ زراعت ریڑھ کی ہڈی ہے تو امید ہے کہ حکومت جو بجٹ پیش کرے گی اس میں ایک ایسا پیکج دے گی کہ سب مانیں کہ یہ ایک زراعی ملک ہے۔
سابق وزیر نے بتایا کہ اپوزیشن کے جو دوست ہیں ان کا جو غیر سنجیدہ رویہ ہے میں اس پر افسوس کا اظہار کرنا چاہتا ہوں، میں شروع کروں تو کہاں سے کروں؟ یہ آج کل کچھ پریشان ہیں، پیپلزپارٹی تین نسلوں سے جمہوریت کی بحالی کے لیے جدو جہد کیے جارہے ہیں اور ان سالوں میں انہی لوگوں نے ہماری مخالفت کی۔
بلاول نے کہا یہ بات ایک کرتے ہیں اور سیاست ان کی کچھ اور ہے، بطور ان کے یہ آئین کی بالا دستی، حقیقی آزادی، قانون کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں مگر بات کرنی ہے تو صرف افواج اور اسٹیبلشمنٹ سے، پاؤں اگر کسی کا پکڑا ہوا ہے تو انہی کا پکڑا ہوا ہے، بات ایک کرتے ہیں، سیاست ایک کرتے ہیں، اصل میں وہ نا جمہوریت نا آئین کی بالا دستی میں دلچسپی رکھتے ہیں، وہ صرف اپنی ذاتی مسئلوں پر یقین رکھتے ہیں، یہ عوام کے مسائل کا حل نہیں چاہتے صرف اور صرف وہ اپنے ذاتی مسائل کا حل چاتا ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ کس کا پاؤں پکڑنا پڑے گا تو اس لیے وہ سیاستدانوں کو انکار کر رہے ہیں کہ آپ سے بات نہیں کریں گے لیکن آئین کی بالادستی کے لیے انہی سے بات کرتے ہیں جن کو قائد حزب اختلاف کہہ رہا تھا کہ سیاست میں مداخلت نا کرو، وہ انہی سے پاؤں پکڑ کے زبردستی مداخلت کروا رہے ہیں، یہ غیر سنجیدہ ہیں، یہ منافقت کی سیاست ہے۔
بلاول بھٹو کے مطابق یہ جمہوریت، پارلیمان کے ساتھ منافقت ہے، جب تک یہ منافقت جاری ہے ان کا رونا دھونا جاری رہے گا، اگر وہ قانون میں دلچسپی رکھتے ہیں تو پیپلز پارٹی موجود ہے مگر اگر یہ ڈرامہ جوکر رہے ہیں تو اس کا کوئی فائدہ نا ان کو ہوگا نا عوام کو ہوگا، ان کی غیر سنجیدگی دیکھیں کہ یہ ہر بار ایسے تحفے دیتے ہیں، پچھلی بار پنجاب کو عثمان بزدار کا تحفہ دیا، اس بار پختونخوا کو، خیبر پختونخوا کا قصور کیا ہے کہ اس قسم کا وزیر اعلی دلوا دیا، یہ ان کی منافقت کا ثبوت ہے، یہ صوبے کے مسائل کا حل نہیں چاہتے، یہ ڈرامے باز ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی حقیقت کچھ اور ہے اور دکھاتے کچھ اور ہیں،یہ جو وزیر اعلی ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ اس کو انہوں نے بنایا ہے لیکن اصل میں کسی اور نے بنایا ہے، یہ وزیر اعلی ہوائی فائرنگ کرتا ہے ہر روز بیان گورنر صاحب کے لیے دیتا ہے، ان کو خان کو بھی خوش رکھنا ہے اور وزیر اعلی بھی رہنا ہے، مسئلہ اتنا ہے کہ خیبر پختونخوا ہو یا یہاں ہو ان کی سیاست ہی یہی رہی کہ دکھانا کچھ اور ہے اور کرنا کچھ اور ہے، اس کا نقصان پاکستان کی عوام بھگت رہے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ یہ سیاسی جماعت ہے لیکن یہ دکھاتے کچھ اور کرتے کچھ اور ہیں۔
سابق وزیر نے بتایاکہ یہ مئی 9 جیسے سنگین واقعہ کی مذمت کرنے کے لیے تیار نہیں، اپنے عسکری ونگ کی مذمت کے لیے تیار نہیں تو اگر یہ 9 مئی کی معافی مانگنے کے لیے تیار نہیں تو ان کا رونا دھونا جاری رہے گا، ان کا حق ہے پر امن احتجاج کرے لیکن کسی کو حق نہیں کہ وہ دہشتگردی کرے، جمہوریت میں احتجاج کا حق ہے مگر شہدا کے یادگاروں پر حملہ کرنے کا حق کسی کو نہیں،یہ احتجاج نہیں بغاوت تھی حکومت اور فوج کے خلاف جو ناکام رہا، اگر یہ توبہ کے لیے تیار نہیں تو مطلب یہ سارے گندے انڈے ہیں۔
بلاول بھٹو کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے شور شرابہ اور نعرے بازی کرنا شروع کردی۔
بلاول بھٹو نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان کا جو لیڈر آف اپوزیشن ہے اس نے 9 مئی کی بغاوت کو شہید بنظیر بھٹو کی شہادت سے کیسے ملایا؟ ان غیر جمہوری لوگوں کو اندازہ نہیں کہ کہاں ان کی شہادت اور کہاں یہ 9 مئی والی دہشتگردی، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں ، ایک رات ان کے لیڈر کو گرفتار کیا گیا تو وہ اتنا گھبرا گیا کہ اس نے اپنے کارکنان کو ہدایت دی کہ شہدا کے یادگاروں پر حملہ کرو، شہید بھٹو کی شہادت پر کارکنان نے اپنے آپ کو جلایا مگر کسی فوجی تنصیبات پر حملہ نہیں کیا، بینظیر کی شہادت کے وقت بھی چاروں صوبوں میں احتجاج ہوا مگر کسی فوج تنصیبات پر حملہ نہیں ہوا، ہم نسلوں کو کندھوں پر اٹھا کر پاکستان زندہ کا نعرہ لگاتے ہیں، یہ انگلی کٹوا کے ایک رات جیل میں گزار کے پاکستان کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہیں، یہ ہم میں اور ان غیر جمہوری لوگوں میں فرق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا لیڈر رو رہا ہے مجھے نکالو، نکالو ، نکالو اس لیے لیڈر کو خوش کرنے کے لیے ان کو حقیقی آزادی نہیں بلکہ لیڈر کا رونا دھونا بند کرنا ہے، پیپلز پارٹی اس گالم گلوچ کی سیاست کو عوام کے میدان میں شکست دلوائیں گے۔
قبل ازیں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما مصطفٰی کمال نے کہا ہے کہ یہاں ہر کوئی خود کو پارسا بتاکر مخالف کی تذلیل کر کے کے ایوان سے جانا چاہتا ہے۔
ڈپٹی اسپیکر سید غلام مصطفیٰ شاہ کی صدارت میں قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ صدر مملکت نے یہاں تقریر کی اور اس دوران جو حالت ہوئے وہ خراب تھے، یہ کہیں سے بھی اچھا نہیں تھا، وہ اس ملک کے وقار کے لیے غلط تھا، ہمارے ایک دوسرے سے اختلافات ہمیشہ رہے ہیں لیکن کچھ چیزیں روایات ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت پورے پاکستان کے صدر ہیں، اس کے بعد اس پورے صورتحال پر جشن بھی منایا گیا، پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے باہر جاکر میڈیا سے کہا ہم نے صدر زرداری کو اکیس توپوں کی سلامی دی تو یہ بہت غلط تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے لوگوں نے ہمیں یہاں بھیجا ہے، میں پہلے کراچی کی بات کرنا چاہتا ہوں کہ کراچی پاکستان کا ریونیو حب ہے، ہم پورے پاکستان کا گیٹ وے ہیں، ہم 68 فیصد ریونیو جمع کر کے پورے پاکستان کو دیتے ہیں لیکن آج میں یہ بات یوں کر رہا ہوں کہ جب بھی ہم نے صدرزرداری سے بات کی تو ہم نے ان کو ہمیشہ مثبت پایا ہے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں دوسرے چاند پر جارہے ہیں وہاں کراچی میں بچے گٹر میں گر کر مر رہے ہیں، میں یہ اعتراض کے طور پر نہیں کہہ رہا بلکہ صدر مملکت سےدرخواست کر رہا ہوں کہ 15 سال سے کراچی کو ایک قطرہ بھی نیا پانی نہیں دیا گیا اور جو پانی پائب میں آتا تھا اب ٹینکر مافیا وہی پانی چوری کر کے لوگوں کو بیچتے ہیں۔
مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ سندھ میں 70 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔
قبل ازیں قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رہنما پیپلز پارٹی شہلا رضا نے کہا کہ زرداری صاحب کو شرف ہے کہ وہ دوسری مرتبہ صدر بنے، پاکستان پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے تمام سیاسی جماعتیں ملکی مفاد پر ایک نقطے پر اکٹھے ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ سے مارشل لا اور ڈکٹیٹر شپ کی مخالفت کی، ذوالفقار علی بھٹو جب تاشقند گئے تو ڈکٹیٹر سے بیزاری کا اظہار کیا، آصف علی زرداری نے ان سے بھی مذاکرات کیے جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت پر مٹھائیاں بانٹی تھیں۔
سیاسی استحکام کے ساتھ معاشی استحکام لازمی ہے، ریاض فتیانہ
بعد ازاں تحریک انصاف کے رہنما ریاض فتیانہ نے ایوان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گندم بحران نے کسان کی کمر توڑ دی، پاسکو باردانہ کی رقم وصول کررہی ہے، ایک ہزار روپے فی بوری رشوت لی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی استحکام کے ساتھ معاشی استحکام لازمی ہے، عارضی مذاکرات کی بجائے نتیجہ خیز مذاکرات کیے جائیں، بانی چیئرمین عمران خان سمیت سیاسی قیدیوں کو رہاکیا جائے، ہم بامعنی مذاکرات کے لیے تیار ہیں، اسپیکر اپنے دفتر کا استعمال کریں۔
بعد ازاں پیپلز پارٹی کی رہنما شگفتہ جمانی نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ 17 اپریل کو 14 ویں جمہوری صدر نے اس ایوان سے خطاب کیا، اس شخص نے اپنی جوانی کے 7 سال بے گناہ جیل میں گزارے ہیں، یہ اس شخص کا خطاب تھا جس نے جمہوریت کی خاطر اپنے گھر سے جنازے اٹھائے۔
ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری جب پہلی بار صدر منتخب ہوئے تو اس وقت کوئی سرکاری قیدی نہیں تھا، آصف زرداری نے اس ملک کے استحکام کے لیے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا، وہ چاہتا تو مطلق العنان صدر بن سکتا تھا لیکن اس نے اختیارات پارلیمان کو منتقل کیے، آصف زرداری نے پختونوں کو، گلگت کو شناخت دی۔
آصف زرداری وہ پیڑ ہے جس کے سائے میں سب کو امن ملے گا، شگفتہ جمانی
انہوں نے بتایا کہ آصف زرداری نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو با اختیار بنایا، اکائیوں کو وفاق کی چھت تلے اکٹھا کیا، آصف زرداری تو وہ پیڑ ہے جس کے سائے میں سب کو امن ملے گا، امان ملے گی۔
شگفتہ جمانی نے کہا کہ اس ایوان میں کہا گیا کہ ہم پر چھاپے مارے گئے، ہمیں پیٹا گیا، ہم سے پوچھو کتنی تکالیف ہم نے برداشت کیں ہیں، ہمیں یاد ہے شرجیل میمن، خورشید شاہ آصف زرداری، فریال تالپور تک کو جیلوں میں ڈالا گیا، ہمارے قائدین کو عید کی رات جیل بھیجا گیا ، قذافی اسٹیڈیم میں مادر جمہوریت نصرت بھٹو کو ڈنڈے مارے گئے، ان کا سر پھاڑا گیا۔
اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ممبر قومی اسمبلی آسیہ تنولی نے پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں 10 سال آپ کی حکومت رہی لیکن خیبرپختونخوا میں کونسی دودھ کی نہریں بہائیں؟ وہاں کون سے شعبے میں اصلاحات کیے گئے؟ عوام کو ایسے خواب دکھائے گئے جو 9 مئی کی صورت میں سامنے آئے۔
بعد ازاں ڈپٹی اسپیکر نے ایوان کا اجلاس 16 مئی تک ملتوی کردیا۔