سپریم کورٹ نے ترقیاتی منصوبوں پر سیاستدانوں کی تختیاں لگانے پر پابندی عائد کر دی
سپریم کورٹ نے ترقیاتی منصوبوں پر سیاستدانوں کی تختیاں لگانے پر ایک بار پھر پابندی عائد کر دی اور وفاقی و صوبائی حکومتوں سے 2 ہفتے میں عملدرآمد رپورٹ اور خیبرپختونخوا حکومت سے ترقیاتی فنڈز آئین اور قانون کے مطابق خرچ کرنے پر رپورٹ بھی طلب کر لی۔
کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ پاکستان جمہوری ملک ہے کوئی بادشاہت نہیں، پاکستان میں عوام کسی حکمران کی رعایا نہیں ہے، عدالت نے کہا کہ کیا عوام کا پیسہ آئین اور قانون کے برخلاف خرچ کیا جا سکتا ہے؟
سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں ترقیاتی فنڈز اور تشہیر کے معاملے پر عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کر رہی ہیں، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے مطابق وہ حکومت کو عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کی سفارش کر چکے۔
سرکاری وکلا نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اپنی اپنی حکومتوں کو عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کا کہیں گے۔
سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا میں سرکاری فنڈز کی تقسیم کے حوالے سے چیف سیکریٹری کو عملدرآمد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
چیف جسٹس فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ذاتی تشہیر اور ترقیاتی فنڈز کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر ہیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ حکومت کو سپریم کورٹ فیصلے پر عملدرآمد کا کہہ چکا ہوں۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو کہا کہ لگتا ہے آپ نے آج اور کل کے اخبار نہیں پڑھے، غریب عوام نے آخر حکومتوں کا بگاڑا کیا ہے؟
چیف جسٹس فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ مقابلہ کرنا ہے تو اس بات پر کریں کہ کس سیاستدان نے کتنا انکم ٹیکس دیا، اپنی ذاتی جیب سے ترقیاتی کام کرائیں تو تختیاں ضرور لگائیں، اس معاملے پر کوئی اپوزیشن نہیں سب ایک پیج پر ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اتنا تو واضح ہوگیا کہ بدترین سیاسی مخالف بھی کسی بات پر متفق ہیں، استفسار کیا کہ کیا آئین اجازت دیتا ہے کہ اسمبلی کی منظوری کے بغیر پیسہ خرچ کیا جا سکے؟
چیف جسٹس فائز عیسی کا کہنا تھا کہ ممبران اسمبلی کیوں جاتے ہیں اور الیکشن کیوں لڑتے ہیں؟ اسمبلی جانے کا بنیادی مقصد قانون سازی اور فنڈز خرچ کرنے کی اجازت لینا ہوتا ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ ترقیاتی اسکیم کے نام پر ارکان اسمبلی کروڑوں روپے اڑا دیتے ہیں، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسمبلی سے کیوں ڈرتے ہیں؟ فنڈز خرچ کرنے ہیں تو اسمبلی سے منظوری لیں، لوگوں کو بھی علم ہو کہ پیسہ کہاں خرچ ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ ارکان اسمبلی نے لینڈ کروزر لینی ہو تو فوری پیسے نکل آتے ہیں، لینڈ کروزر خریدنے کے لیے اسمبلی سے منظوری لیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیوں سیاستدانوں کے نام پر اسکیمیں بنائی جاتی ہیں؟ جنہوں نے پاکستان بنایا ان کی قدر نہیں کرتے، کسی نے کچھ کرنا ہے تو اپنی جیب سے کرے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ امریکا میں تعلیمی ادارے لوگوں نے اپنی جیب سے بنائے ہیں، آزادی کا مطلب ہے آزاد لوگ، ایک کی غلامی چھوڑ کر دوسرے کی نہیں پکڑنی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اپنی جیب سے پیسے خرچ کرے کام کروائیں تو اپنی تختی ضرور لگائیں، عوام کے پیسے سے اسکیم بنا کر اپنی تصویر کیسے لگا سکتے ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ کوئی سیاسی جماعت آواز نہیں اٹھاتی، سب کو اپنا حصہ چاہیے، عوامی پیسوں پر ذاتی تشہیر کیوں کی جاتی ہے، چین میں وزیر سے ارکان اسمبلی تک سب سائیکل پر جاتے ہیں، ہم لینڈ کروزر خریدنے میں لگے ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ پنجاب میں جو کام پرویز الہٰی کے دور میں ہو رہا تھا، وہ اب بھی وہی کام ہو رہا ہے، منصوبوں پر فیتا کاٹ کر کریڈٹ کیوں لیا جاتا ہے؟
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ مقامی حکومتوں کے پاس وسائل ہی نہیں ہیں، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تختیاں آزادی کے لیے لڑنے والوں کی نام کی لگائیں۔
جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ قانون سازی کرنے والے کچھ اور کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ پنجاب میں کتنے سرکاری وکلاء ہیں؟
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اس وقت 86 لاء افسران ہیں، ان کی تعداد کم کرکے 66 کی جا رہی ہے۔
عدالت نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو سپریم کورٹ کے 2021 کے فیصلے پر عملدرآمد کی ہدایت کر دی، سپریم کورٹ نے 2 ہفتے میں وفاقی و صوبائی حکومتوں سے عملدرآمد رپورٹ بھی طلب کر لی۔
واضح رہے کہ 11 فروری 2021 کو سپریم کورٹ نے اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کے معاملے میں دستخط شدہ جواب پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم کی جانب سے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کا نوٹس لیا تھا اور معاملے پر سماعت کے لیے بینچ تشکیل دینے کا معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا تھا۔
جس پر چیف جسٹس نے اپنی سربراہی میں ایک 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا، جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل تھے، بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن تھے۔