• KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 4:59pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 4:59pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm

سائفر کیس: عمران خان، شاہ محمود کی سزا کیخلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی

شائع May 8, 2024
عمران خان اور شاہ محمود قریشی  — فائل فوٹو: ایکس/ پی ٹی آئی
عمران خان اور شاہ محمود قریشی — فائل فوٹو: ایکس/ پی ٹی آئی

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت جاری ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مقدمے کی سماعت کی جس میں بانی پی ٹی آئی کے وکلا سلمان صفدر، خالد یوسف چودھری اور دیگر جبکہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ عدالت میں پیش ہوئے۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کی مختلف لیکڈ آڈیوز کے حوالے سے ٹیکنیکل انائلیسز رپورٹ عدالت میں پیش کردی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس ٹیکنیکل رپورٹ میں 9 آڈیو بیانات ایک سی ڈی میں موجود ہیں، ٹیکنیکل رپورٹ سائفر سیکیورٹی افسر نے تیار کی ہے، ٹیکنیکل اینالسٹ نے یہ آڈیوز مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے حاصل کی ہیں، رپورٹ تیار کرنے والے گواہ کے بیان کے مطابق آڈیو لیکس اس وقت بھی مختلف پلیٹ فارمز پر موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایف آئی اے نے انکوائری کی ہے اس سے متعلق ایکسپرٹ نے کیا تحقیق کی ہے؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ آڈیوز آئی کہاں سے ہیں اور اس کو پوسٹ کس نے کیا ہے؟

ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ایک نامعلوم شخص نے یہ آڈیوز انٹرنیٹ پر اپلوڈ کی تھیں، الیکٹرانک شواہد سے متعلق ایکسپرٹس نے عدالت میں پیش ہو کر بیان دیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ایکسپرٹس بطور ایکسپرٹ عدالت میں پیش ہوئے یا بطور گواہ؟ مریم نواز کیس میں بھی لکھا تھا کہ جو ایکسپرٹ آتا ہے اس نے اپنی خصوصیت بتانا ہوتی ہے، ایکسپرٹ نے بتانا ہے کہ وہ کس چیز کا ایکسپرٹ ہے؟

ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ 28 ستمبر 2022 کو ایک تصدیق شدہ اکاؤنٹ سے یہ آیڈیوز اپلوڈ کی گئیں ہیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ انٹرنیٹ پر موجود چیز کو تصدیق کیے بغیر دس سال سزا سنا دی گئی؟ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آج ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جس سے میری اور آپ کی آواز بھی بنائی جاسکتی ہے، سابق چیف جسٹس کی آڈیو لیک ہوئی اور بعد میں تحقیق سے غلط نکلی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مزید بتایا کہ سائبر ونگ کے پاس یہ انفارمیشن ہوتی ہے کہ کون اکاؤنٹ استعمال کررہا ہے، ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ سائفر کیس میں صرف یہ ایک ثبوت نہیں ہے اس کے علاوہ بھی بہت سی دستاویزات موجود ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ججمنٹ میں ہے کہ کسی کی آیڈیو ریکارڈنگ نہیں کی جاسکتی، اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے کو اس معاملے کی جڑ تک پہنچنا چاہیے جو ایک وزیراعظم تک پہنچ گیا۔

پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اظہر نامی شخص کا ویریفائیڈ ٹویٹر اکاؤنٹ ہے جس پر آڈیو اپلوڈ کی گئی،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ کیا اس اظہر کو بلا کر پوچھا گیا؟، اس اظہر سے پوچھیں تو صحیح کہ اس نے وزیراعظم آفس کی آڈیو کیسے بگ کر لی؟ اگر بَگ کر لی تو کیا وہ اسے عدالت میں پیش کرنے کی جرات بھی کرے گا؟ یہ اظہر تو بہت کام کا آدمی ہے یہ تو اثاثہ ہے اور ہو سکتا ہے، اظہر نے وزیراعظم کے گھر سے وزیر خارجہ کے ساتھ گفتگو بَگ کر کے انٹرنیٹ پر لگا دی، آپ کہتے ہیں اظہر کو چھوڑ دیں لیکن جو اس نے کہا وہ بالکل درست ہے، آپ انٹرنیٹ والی آڈیو کو درست مان کر دس دس سال سزا بھی دے دیتے ہیں۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہا کہ یہ ہماری واحد شہادت نہیں ہے، اس کے علاوہ اور بھی ہیں۔

بعد ازاں پراسیکیوٹر کی جانب سے سائفر معاملے پر مختلف اخبارات کی خبروں کا حوالہ دیا گیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ان اخبارات کی خبروں سے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ حامد علی شاہ نے کہا کہ اخبارات کے اندر سیکریٹ معلومات کو لیک کیا گیا ہے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کونسی ایسی معلومات تھیں جو اخبارات میں لیک ہوئیں؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ گواہوں کے بیانات پر بات کرنے کے بعد اس بارے عدالت کو آگاہ کروں گا۔

پھر ایف آئی اے پراسیکیوٹر کی جانب سے سرکاری ٹی وی کے کیمرہ مین کا بیان پڑھا گیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ کیمرہ مین نے جو ریکارڈ کیا وہ سی ڈی میں موجود ہے؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ جی وہ سی ڈی میں موجود ہے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ کیمرہ مین تو پھر اعظم خان سے بھی اسٹار گواہ بن گیا جس نے سائفر دیکھ بھی لیا، چیف جسٹس نے کہا کہ کیمرہ مین یہی کہہ رہا ہے نا 27 مارچ 2022 کے جلسے کی ریکارڈنگ اس نے کی ہے۔

بعد ازاں ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے سائفر کیس کی گواہ وزارت خارجہ کی ڈائریکٹر اسپوکس پرسن کا بیان پڑھ کر سنایا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ ایف آئی اے اعظم خان کے بجائے کیمرہ مین کے بیان پر انحصار کر رہی ہے؟ کیا پراسیکیوٹر کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں کہ اعظم خان کا بیان تسلیم نہیں کیا جائے گا؟ اعظم خان کا بیان ضائع ہونے کا سوچ کر کیمرہ مین کے بیان پر انحصار کر رہے ہیں؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بانی پی ٹی آئی کے جو انٹریوز ہیں وہ اس وقت بھی یوٹیوب پر موجود ہوں گے، ایف آئی اے پراسیکیوٹریوٹیوب پر تقریر موجود ہوگی، ایک نجی ٹی وی چینل پر دیا گیا انٹرویو بھی پیمرا یا متعلقہ پروگرام کے پروڈیوسر کے پاس موجود ہوگا، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ڈائریکٹر وزارت خارجہ اقرا اشرف نے لکھا کہ یہ فائنل ٹرانسکرپٹ نہیں ہے، اقرا اشرف نے لکھا کہ مجھ سے ایف آئی اے نے جلدی میں یہ ٹرانسکرپٹ لکھوایا ، اقرا اشرف نے ایمانداری سے کام لیا، آپ نے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے ایک نامکمل ڈاکومنٹ لے لیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ اقرا اشرف کا ڈاکومنٹ نکال لیا جائے تو آپ کے پاس کیا بچتا ہے؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے بتایا کہ میرا کیس صرف اس ڈاکومنٹ پر انحصار نہیں کرتا ہے۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر کی جانب سے قانون شہادت کا حوالہ دیا گیا جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ جو پڑھ رہے ہیں وہ گوگل سے ڈاؤ لوڈ کیا ہے، کاپی پیسٹ کرنے سے غلطیاں نکل آتی ہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جو سیلر تھے وہ پبلشر بن گئے ہیں۔

عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ 6 مئی کو سائفر کیس کی سماعت 8 مئی تک ملتعی کر دی گئی تھی۔

یاد رہے کہ 2 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت 6 مئی تک ملتوی کردی تھی جس دوران عدالت نے دریافت کیا کہ کیا وکیل کی عدم موجودگی میں ملزم کے دفاع کے بیان کی اہمیت کم ہو جائے گی؟

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران سائفر کیس میں ایک نیا موڑ سامنے آیا تھا جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا تھا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ خفیہ کیبلز یا سفارتی مراسلہ سابق وزیراعظم عمران خان کے قبضے میں تھا اور وہ ان کے قبضے سے غائب ہوگیا۔

اس سے قبل 22 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیے تھے کہ یہ فوجداری مقدمہ ہے، شک کا معمولی سا فائدہ بھی ملزمان کو ہی جائے گا۔

واضح رہے کہ 17 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیل پر سماعت 22 اپریل تک ملتوی کردی تھی، سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا تھا کہ وزارت خارجہ کی جگہ داخلہ نے کیوں شکایت درج کرائی؟

واضح رہے کہ اس سے گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس عامر فاروق نے وکیل بانی پی ٹی آئی سے دریافت کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اعظم خان جو اسٹار گواہ ہیں، ان کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟

واضح رہے کہ 4 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ جو سیکشن لگائے گئے اور سزا سنائی گئی اس سے تو شاہ محمود قریشی کا تعلق ہی کوئی نہیں۔

اس سے قبل 2 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماع ملتوی ہوگئی تھی۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ جب کوڈڈ پیغام کو ڈی کوڈ کر کے کاپی بنائی جائے تو وہ بھی سائفر ہی رہے گا؟

یاد رہے کہ اس سے قبل ہونے والی سماعت میں بھی سلمان صفدر نے بتایا تھا کہ سائفر کی کہانی عدم اعتماد کے بعد شروع ہوئی تھی۔

28 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت 2 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا سائفر کو ڈی کوڈ نہیں کیا گیا؟

20 مارچ کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کی خلاف اپیلوں پرچیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سرکاری وکلا کی تعیناتی کس قانون کے تحت ہوتی ہے؟

19 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کل جواب طلب کرلیا تھا۔

13 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں ضمانت اور سزا معطلی کی اپیلوں پر میرٹ پر دلائل سننے کا فیصلہ کرلیا تھا۔

11 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف دائر اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر پی ٹی آئی کے وکلا سے دلائل طلب کرلیے ۔

26 فروری کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں بانی تحریک انصاف عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کرتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کو نوٹس جاری کر دیا۔

16 فروری کو پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے سائفر، توشہ خانہ اور نکاح کیسز میں سنائی گئی سزاؤں کے خلاف عدالتوں سے رجوع کیا۔

اس سے قبل سماعت میں عدالت نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل نے سزا کے خلاف اپیلوں پر دلائل کا آغاز کردیا جبکہ عدالت نے فریقین کو 11 مارچ مکمل تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت کردی تھی۔

واضح رہے کہ رواں سال 30 جنوری کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔

سائفر کیس

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024