’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین سے متصادم‘، جسٹس شاہد وحید نے اختلافی نوٹ جاری کردیا
سپریم کورٹ کے جسٹس شاہد وحید نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں اختلافی نوٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین سے متصادم ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق جسٹس شاہد وحید نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ آرٹیکل 191 کا سہارا لینے کی اجازت ملی تو عدالتی معاملات میں بذریعہ آرڈیننس بھی مداخلت ہوسکے گی، عدالتی دائرہ اختیار میں اضافہ صرف آئینی ترمیم کے ذریعے ہی ممکن ہے، سادہ قانون سازی سے عدالت کو کوئی نیا دائرہ اختیار تفویض نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے نوٹ میں کہا کہ ججز کمیٹی اپنے رولز پریکٹس اینڈ پروسیجر کے مطابق ہی بنا سکے گی، ججز کی 3 رکنی کمیٹی پریکٹس اینڈ پروسیجر میں موجود خامیوں کو رولز بنا کر درست نہیں کر سکتی، اگر ججز کمیٹی کا کوئی رکن دستیاب نہ ہو تو اس کی جگہ کون لے گا؟ اس پر قانون خاموش ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے مطابق کوئی دوسرا جج کسی کمیٹی ممبر کی جگہ نہیں لے سکتا۔
جسٹس شاہد وحید نے اختلافی نوٹ میں بتایا کہ اگر کمیٹی کے 2 ارکان چیف جسٹس کو صوبائی رجسٹری بھیجنے کا فیصلہ کریں تو کیا ہوگا؟ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے انتظامی سربراہ ہوتے ہیں انہیں دوسرے صوبے بھیجنے کے نتائج سنگین ہوں گے،اگر ایک رکن بیمار اور دوسرا ملک سے باہر ہو تو ایمرجنسی حالات میں بینچز کی تشکیل کیسے ہوگی؟
ان کا کہنا تھا کہ قانون میں ان سوالات کے جواب نہیں، نہ ہی ججز کمیٹی ان کا کوئی حل نکال سکتی ہے، آئین کے مطابق آرٹیکل 184/3 کے درخواستیں قابل سماعت ہونے کا فیصلہ عدالت میں ہی ممکن ہے، ججز کمیٹی انتظامی طور پر کسی درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ نہیں کر سکتی، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی سیکشن 3 اور 4 آپس میں متضاد ہیں، سیکشن تین کے مطابق 184/3 کی بنیادی حقوق کا کیس 3 رکنی بینچ سن سکتا ہے۔
انہوں نے نوٹ میں کہا کہ سیکشن 4 کے مطابق بنیادی حقوق کے معاملے کی تشریح 5 رکنی بینچ ہی کر سکتا ہے، سیکشن 3 سماعت اور آئینی تشریح کی اجازت دیتا ہے جبکہ سیکشن 4 پابندی لگاتا ہے، سپریم کورٹ کے ہر دوسرے مقدمہ میں آئین کی تشریح درکار ہوتی ہے، ہر کیس پر پانچ رکنی بینچ بننے لگ گئے تو زیر التوا 50 ہزار مقدمات کے فیصلے کیسے ہوں گے؟ اس نکتے سے واضح ہوتا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون فراہمی انصاف میں کتنی بڑی رکاوٹ بنے گا۔
جسٹس شاہد وحید کے مطابق قانون کی حکمرانی کے لیے نظام انصاف ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، قانون کی حکمرانی کےلیے ضروری ہے کہ عدلیہ کو آزادی سے بغیر کسی مداخلت کام کرنے دیا جائے، عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین سے متصادم ہے۔
اختلافی نوٹ میں بتایا گیا ہے کہ بینچ کی اکثریت غلط نتیجہ پر پہنچی جو آئین کے مطابق درست نہیں، اختلافی نوٹ کا مقصد مستقبل میں اس ہونے والی غلطی کی اصلاح کرنا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا مقصد عدلیہ کی آزادی اور اس کے امور پر قدغن لگانا ہے، آرٹیکل 184/3کا دائرہ اختیار آئین میں دیا گیا ہے، آرٹیکل 175(2) پارلیمان کو کسی بھی قسم کا قانون بنانے کی اجازت نہیں دیتا، آرٹیکل 175(2) عدالتی دائرہ اختیار کے حوالے سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی قانون آئین میں عدالت کو دیےگئے رولز بنانے کے حق پر حاوی نہیں ہوسکتا، پارلیمان کو بھی آئین سے متصادم قوانین بنانے کا اختیار نہیں، عدالت کے انتظامی امور پر پارلیمان کو مداخلت کی اجازت دینا اختیارات کی آئینی تقسیم کے خلاف ہے، حکومت اگر مخصوص مقدمات میں مرضی کے بینچز بنائے تو یہ عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہوگا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل جسٹس عائشہ ملک نے بھی ایک اضافی نوٹ جاری کیا تھا جس کے مطابق پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 بنانے کا اختیار نہیں ہے، یہ ایکٹ آئین کے خلاف ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال سپریم کورٹ نے ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کے بعد 5 کے مقابلے میں 10 کی اکثریت سے ایکٹ برقرار رکھتے ہوئے اس کے خلاف دائر ہونے والی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔
مختصر فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 برقرار رہے گا جو اسلامی جمہوری پاکستان کے آئین کے مطابق ہے اور اس کے خلاف درخواستیں مسترد کر دی گئی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پیراگراف ٹو: 6 کے مقابلے میں 9 سے ایکٹ کے سیکشن 5 کی ذیلی شق ون، جو اپیل کے حق سے متعلق ہے، کو برقرار رکھا ہے اور جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس شاہد وحید نے فیصلے کی مخالفت کی۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے مختصر فیصلے میں کہا گیا کہ پیراگراف تھری: سیکشن 5 کی ذیلی شق 7 کے مقابلے میں 8 کی اکثریت سے مسترد کردی گئی جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہرمن اللہ، جسٹس مسرت ہلالی نے اس شق کے حق میں فیصلہ دیا جو اقلیتی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے سیکشن 5 کی ذیلی شق 2 کے تحت ماضی میں از خود نوٹس کے تحت دیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیل کے حق کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، اس شق کو 7 کے مقابلے میں 8 کے تناسب سے مسترد کیا گیا ہے۔