شیر افضل کی جگہ وقاص اکرم چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے لیے نامزد
قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے چیئرمین کا تنازع شدت اختیار کرگیا ہے اور اس نے پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کی جانب سے شیر افضل خان مروت کی جگہ شیخ وقاص اکرم کو کمیٹی کا چیئرمین بنانے کے لیے ووٹ دینے پر جماعت کے اعلی عہدیداران کے درمیان اختلافات کو اجاگر کردیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پارٹی کے ایک اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے جمعے کی رات اسلام آباد میں اپنے چیئرمین کی سربراہی میں ملاقات کی جس میں شیر افضل مروت کی جگہ جھنگ سے قومی اسمبلی کے رکن کی نامزدگی پر تبادلہ خیال کیاگیا۔
پارٹی کے اندرونی ذرائع نے کہا کہ عمر ایوب کی سربراہی میں 19 رکنی کمیٹی میں سے 9 نے شیخ وقاص کو، 7 نے افضل مروت کو ووٹ دیا، تاہم عون عباس نے اجلاس میں موجودگی کے باوجود ووٹنگ کے مرحلے میں حصہ لینے سے پرہیز کیا، اس اجلاس میں سابق اسپیکر اسد قیصر اور شیر افضل مروت موجود نہیں تھے۔
شیر افضل مروت سے جب اس معاملے پر تبصرہ کرنے کے لیے فون پر رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تلخی سے جواب دیا کہ یہ میرے خلاف پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کی سازش ہے۔
انہوں نے خاص طور پر عمر ایوب اور شبلی فراز پر الزام لگایا کہ وہ ان کے خلاف کبھی نہ ختم ہونے والی سازشوں میں مصروف ہیں کیونکہ وہ مقبول ہیں۔
پارٹی کے پرنسپل ترجمان رؤف حسن نے تاہم اس موضوع پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بانی چیئرمین معمول کے مطابق معاملات کو بات چیت اور مشاورت کے لیے کمیٹی کو بھیجتے ہیں اور جو بھی سفارشات سامنے آئیں وہ جیل میں قید رہنما کو واپس بھیج دی گئیں ہیں جو اس معاملے پر فیصلہ کریں گے۔
پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات نے فون پر کہا کہ ہم پر فرض ہے کہ اس وقت تک معاملات پر بات نہ کریں جب تک خان صاحب اس معاملے پر ہاں یا ناں میں فیصلہ نہ کرلیں۔
شیر افضل مروت نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی کمیٹی کو جیل میں قید پارٹی رہنما کے فیصلے کو تبدیل کرنے پر کس چیز نے اکسایا؟ یہ 50 ملین ڈالر کا سوال ہے، کون خان صاحب سے ہدایات لے کر آیا اور سیاسی کمیٹی کو میرے نام کی جگہ شیخ وقاص کا نام دینے پر آمادہ کیا؟
انہوں نے کہا کہ میں سیاسی کمیٹی کا رکن ہوں لیکن مجھے اطلاع نہیں دی گئی اور اسد قیصر کے ساتھ بھی یہی کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پہلے ان کے بھائی کو خود مستعفی ہونے کا باعزت آپشن دیے بغیر غیر رسمی طور پر خیبرپختونخوا کابینہ سے ہٹایا گیا اور اب انہیں بھی ایک ’سازش‘ کے ذریعے ہٹایا جا رہا ہے۔