• KHI: Maghrib 5:47pm Isha 7:08pm
  • LHR: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:31pm
  • KHI: Maghrib 5:47pm Isha 7:08pm
  • LHR: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:31pm

گندم درآمدات کے معاملے پر چائے کی پیالی میں طوفان برپا کیا جا رہا ہے، انوار الحق کاکڑ

شائع May 5, 2024
سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ— فائل فوٹو: اے پی پی
سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ— فائل فوٹو: اے پی پی

سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ نگران حکومت کے دور میں درآمد کی گئی گندم کے معاملے پر چائے کی پیالی میں طوفان برپا کیا جا رہا ہے، ملکی کی طلب اور کھپت کو دیکھتے ہوئے گندم درآمد کی اور نجی شعبے سے گندم منگوا کر ہم نے پاکستان کے خزانے میں کچھ رقم ٹیکس کی صورت میں کما کر دے دی۔

اے آر وائے نیوز کے پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ نگران حکومت کے آنے سے پہلے 8اگست کو اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں اس بات پر گفتگو میں ہوئی کہ ہماری کھپت اور 23-2022 میں پیداوار کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا گیا کہ 35لاکھ میٹرک ٹن گندم کی کمی ہے اور اس کو درآمد کرنے کی اجازت طلب کی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس عمل میں بولی اس وقت لگائی جاتی ہے جب حکومت گندم منگواتی ہے لیکن نجی شعبے کی درآمدات میں بولی حکومت کا کام نہیں ہے، یہ چائے کی پیالی میں طوفان برپا کیا ہوا ہے لیکن میکنزم سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم نے آپ کا ایک ارب ڈالر بچایا ہے، ہم نے یہ پاکستان کے ٹیکس کے پیسے منگوانی تھی لہٰذا ہم نے نجی شعبے کو سہولت دی کہ وہ گندم درآمد کر لے اور اس طرح ہم نے پاکستان کے خزانے میں کچھ رقم ٹیکس کی صورت میں کما کر دے دی۔

سابق نگران وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے ٹریڈنگ کارپوریشن پاکستان کو منع کیا اور ہم نے انہیں درآمدات کی اجازت نہیں دی، اس کے نتیجے میں ہم پر یہ دباؤ آ رہا تھا کہ یہ گندم کا خلا ہے یہ کیسے پُر ہو گا، ہم نے ملک میں گندم کی مانگ کو دیکھتے ہوئے نجی شعبے کو یہ خلا پُر کرنے کا کام سونپا۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبوں سے ڈیٹا آنے پر وفاقی حکومت گندم، کھاد وغیرہ درآمد کرتی ہے، 10لاکھ ٹن گندم کے اسٹریٹیجک ذخائر کی ضرورت ہوتی ہے، ٹریڈنگ کارپوریشن سے گندم منگوانے کے طریقہ کار پر اعتراض ہوتا ہے جبکہ آئی ایم ایف بھی اس پر اعتراض کر چکا ہے۔

گندم محض آٹھ دن کے اندر پاکستان پہنچنے کے حوالے سے سوال پر سینیٹر نے کہا کہ لوگ اس حوالے سے لاعلم ہیں لیکن اب دور بدل چکا ہے، اب جہاز مہینوں لنگر انداز نہیں رہتے، جن 60 کمپنیوں نے 35لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی ہے ان میں سے ایک فرنچ کمپنی لوئس ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ گندم کی تجارت کرتی ہے اور 8 دن تو انہوں نے زیادہ لیے ہیں، وہ تین دن کے اندر بھی پہنچا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسی اعتراض کی بنیاد پر ایک موجودہ سینیٹر نے مجھ پر 85ارب روپے کا الزام عائد کردیا کہ انہوں نے پہلے سے گٹھ جوڑ کر کے گندم منگوا لی تھی اور منظوری بعد میں دی تھی، دراصل انسپکٹر جمشید کی کہانیاں بہت بکتی تھیں، اخبار جہاں اس ملک میں بہت مقبول رہا ہے، یہاں جھوٹ بکتا ہے۔

کسانوں کے احتجاج پر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ کیا اس سال گندم کی بمپر فصل کے باوجود ہم نے ملک کی کھپت کے مطابق 3کروڑ 20لاکھ میٹرک ٹن گندم کی پیداوار کی ہے؟ نہیں، کیونکہ ہم نے 2کروڑ 90لاکھ میٹرک ٹن گندم کی پیداوار کی ہے جو گزرے سالوں سے زیادہ ہے لیکن خلا اب بھی موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے 24لاکھ میٹرک ٹن گندم کا خلاف موجود تھا، اب نجی شعبے نے 34لاکھ میٹرک ٹن گندم لے آیا ہے تو 14لاکھ میٹرک ٹن اضافی ہے، اس میں سے 4لاکھ ٹن ہمارے دورانیے میں آئی ہے اور 9 لاکھ ٹن اس نئی حکومت میں آئی ہے، موجودہ وزیراعظم کو بھی لاعلم رکھا گیا ہے اور درآمدات ہورہی تھی۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ پر یہ الزامات کیوں عائد کیے جا رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف ہمیں اسٹیبلشمنٹ سے جوڑتی ہے، نگران حکومت کے ماڈل کی بہت تعریف ہو رہی ہے لیکن پی ٹی آئی اس پر تنقید کرنا چاہتی ہے کہ یہ نااہل، چور اور کرپٹ تھے اور جب اپوزیشن کا سینیٹر ایوان میں کھڑے ہو کر الزام لگاتا ہے تو حکومت پر بھی دباؤ آجاتا ہے اور وہ بھی ایسے میں فوری ردعمل دے دیتی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 18 دسمبر 2024
کارٹون : 17 دسمبر 2024