• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

آرمی کا اپنا قانون ہے، عام عدالتوں میں ان کے کیسز نہیں آسکتے، عدالت

شائع May 2, 2024
سندھ ہائی کورٹ—فائل فوٹو:فیس بک
سندھ ہائی کورٹ—فائل فوٹو:فیس بک

سندھ ہائی کورٹ نے ملٹری ایکٹ سے آرٹیکل 176 حذف کرنے سے متعلق درخواست کی سماعت ملتوی کردی جس دوران چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیے کہ آرمی کا اپنا قانون ہے، عام عدالتوں میں ان کےکیسز نہیں آسکتے۔

ڈان نیوز کے مطابق چیف جسٹس عقیل احمد عباسی اور جسٹس مبین لاکھو نے مقدمے کی سماعت کی۔

درخواست گزار شبیراعوان نے دوران سماعت عدالت کو بتایا کہ آرمی ایکٹ 1952 اور 1976 میں آرٹیکل 176 شامل کیا گیا تھا، سب سے پہلے آرٹیکل 176 کا استعمال جنرل ضیا الحق پھرپرویز مشرف نےکیا، یہ لوگ اس آرٹیکل کی وجہ سےمنتخب حکومت کو چلتا کردیتے ہیں، جب دل چاہتا ہے مارشل لا لگا دیتے ہیں۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ صورت حال اس وقت بھی ٹھیک نہیں ہے۔

چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیے کہ قانون آرمی نے تونہیں بنایا، قانون تو قانون بنانے والوں نے بنایا ہے، جج نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ آپ کون ہیں؟ کیا کرتے ہیں؟

شبیر اعوان نے بتایا کہ میں آرمی میں ہوں، آئی ایس آئی میں ویٹنگ پر ہوں، چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے کہا کہ آئی ایس آئی کا تو دنیا کی بہترین ایجنسیوں میں شمار ہوتا ہے، کیا عدالت کوبھی آزمانے آئے ہو؟

انہوں نے مزید کہا کہ آرمی کا اپنا قانون ہے، عام عدالتوں میں ان کےکیسز نہیں آسکتے ہیں۔

اس پر درخواستگزار نے بتایا کہ میں آرمی کے معاملات میں مداخلت نہیں بلکہ ایکٹ سے آرٹیکل 176 کے حذف کے لیے آیا ہوں۔

بعد ازاں عدالت نے درخواست گزار شبیر اعوان کو تیاری کرکے پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم فی الحال درخواست مسترد نہیں کررہے، درخواست قابل سماعت ہونے سے متعلق پہلے عدالت کو مطمئن کریں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024