کسانوں کی شکایات پر سخت نوٹس، وزیراعظم کا گندم خریداری کا ہدف فوری بڑھانے کا حکم
وزیراعظم شہباز شریف نے گندم کے حوالے سامنے آنے کی شکایات کے حل کے لیے اہم فیصلہ کرتے ہوئے گندم خریداری کا ہدف 14 لاکھ میٹرک ٹن سے بڑھا کر 18 ملین میٹرک ٹن کرتے ہوئے فوری خریداری کا حکم دے دیا۔
ملک میں گندم کی خریداری کے معاملے پر کسانوں کو مشکلات کا سامنا ہے، گزشتہ روز قومی اسمبلی میں بھی اس حوالے سے اپوزیشن بینچز پر بیٹھے ارکان نے گندم کی خریداری سے حکومتی انکار اور بمپر فصل ہونے کے باوجود اجناس کی درآمد کی اجازت دینے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
اپوزیشن کے شیخ وقاص اکرم نے حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جلد کسان سڑکوں پر ہوں گے اور حکمران اس کا سامنا نہیں کر سکیں گے۔
وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی رانا تنویر نے اعتراف کیا تھا کہ گندم کی درآمد کی اجازت دینا نگران حکومت کا غلط فیصلہ تھا، انہوں نے کہا کہ وہ کاشتکاروں سے زیادہ سے زیادہ گندم کی خریداری کے لیے صوبائی حکومتوں کو خط لکھیں گے۔
اب وزیراعظم کسانوں کی شکایات پر سخت نوٹس لیتے ہوئے وفاقی حکومت کی طرف سے کسانوں سے گندم کی فوری خریداری کا حکم دے دیا۔
وزیراعظم نے گندم کی خریداری کے حوالے سے پاسکو کو شفافیت اور کسانوں کی سہولت کو ترجیح دینے کی ہدایت بھی کردی۔
شہباز شریف نے وفاقی حکومت کا گندم خریداری کا 1.4 ملین میٹرک ٹن کا ہدف بڑھا کر 1.8 ملین میٹرک ٹن کردیا۔
وزیراعظم کی جانب سے پاسکو کو گندم خریداری کا ہدف بڑھانے اور فوری خریداری یقینی بنانے کے احکامات جاری کر دیے گئے۔
قبل ازیں صدر پاکستان کسان اتحادخالد کھوکھر نے وزیر اعظم شہبازشریف کو خط لکھا تھا جس میں ملک میں گندم بحران اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کی انکوائری کا مطالبہ کیا تھا۔
’ڈان نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق صدر پاکستان اتحاد نے خط میں لکھا کہ غیر ضروری طور پر گندم درآمد سے ملکی خزانے کو ایک ارب ڈالرکا نقصان ہوا، وزرات تحفظ خوراک نے 35 لاکھ میٹرک ٹن سے زائد گندم درآمد کی، جس سےکسانوں کو 3 سو 80 ارب اور حکومت 104 ارب روپے کا نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔
خالد کھوکھر نے خط میں مزید لکھا کہ پاسکو اور صوبائی محکمہ خوراک کے پاس یکم اپریل تک 43 لاکھ میٹرک ٹن سے زائد گندم موجود تھی۔
کامرس منسٹری کے غلط فیصلے کی وجہ سے گندم کی درآمد پر کوئی قدغن نا لگائی گئی اور مارچ تک کراچی میں گندم کے جہاز لنگر انداز ہوتے رہے ہیں۔
وزیر اعظم اس معاملے کا نوٹس لیں اور ایک اعلی سطحی کمیٹی بنا کر اس کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سزا دیں۔