ڈیلرز نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کرنے کی حکومتی پالیسی مسترد کردی
آئل ڈیلرز ایسوسی ایشن نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کرنے کے حکومتی پالیسی کومسترد کرتے ہوئے فیصلے پر نظرثانی نہ کیے جانے کی صورت میں احتجاج کی دھمکی دی ہے۔
’ڈان نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق پیٹرولیم ڈیلرز نے حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین سے متعلق نئے فارمولے کے خلاف احتجاج کا آغاز کردیا ہے۔
چیئرمین پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن عبد السمیع خان کا کہنا تھا کہ ’آئل ڈیلرز نے احتجاج کا آغاز کردیا ہے، پالیسی پر نظر ثانی نہ کی تو ہڑتال تک جائیں گے‘۔
پیٹرولیم ڈیلرز کے نزدیک نئے فارمولے سے ہر شہر میں پیٹرول کی پرائس الگ ہوگی جس کا نقصان عوام کو برداشت کرنا ہوگا۔
ڈیلرز ایسوسی ایشن کے رہنما وسیم قادری کا کہنا تھا کہ ’سب شہروں میں پرائس میں فرق آجائے کراچی میں الگ اور جگہ الگ ریٹ ہوں گے‘۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ہی یہ خبر سامنے آئی تھی کہ ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور تیل کی مصنوعات کی اسمگلنگ پر آئل انڈسٹری کی شکایات کے تناظر میں حکومت نے عوامی تنقید کا رخ آئل مارکیٹنگ کمپنیز (او ایم سیز) کی جانب موڑنے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کرنے کے عمل کو تیز کردیا۔
پیٹرولیم ڈویژن نے ایک ہدایت میں آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) سے کہا تھا کہ وہ تین روز میں ’پیٹرولیم مصنوعات کی ڈی ریگولیشن پر تجزیہ اور مضمرات پر ایک پریزنٹیشن پیش کرے‘۔
کہا گیا کہ اس پریزنٹیشن میں ’ان کنٹری فریٹ ایکویلائزیشن مارجنز (آئی ایف ای ایم) اور دیگر متعلقہ پہلوؤں‘ کا احاطہ ہونا چاہیے۔
سینیئر سرکاری اہلکار نے کہا تھا کہ یہ ہدایت وزیراعظم کے دفتر کی جانب سے ’پیٹرولیم سیکٹر کے لیے ڈی ریگولیشن فریم ورک‘ کو فوری طور پر حتمی شکل دینے کی ہدایات کے بعد سامنے آئی۔
حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باعث عوامی تنقید کی زد میں رہ چکی ہے حالانکہ اسے اتنی آزادی نہیں کہ وہ قرض دہندگان کی طرف سے مقرر کردہ قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار کے تحت مختلف مصنوعات پر مقررہ ٹیکس کی شرح کو تبدیل کرسکے۔
اس تمام معاملے میں حکومت کا واحد کردار اوگرا کی جانب سے طے کیے گئے اضافے کا اعلان کرنا ہے، تیل کی مصنوعات میں اضافہ یا کمی بین الاقوامی مارکیٹ اور شرح تبادلہ کے اثرات کا نتیجہ ہوتی ہے۔
دوسری جانب تیل کی صنعت بھی حکومت پر تنقید کر رہی تھی کہ وہ سستے اور غیرمعیاری تیل کی بڑے پیمانے پر، بالخصوص ایران سے اسمگلنگ روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہی۔
اسمگلنگ سے ریگولیٹڈ آئل انڈسٹری کے مارکیٹ شیئر اور منافع کو متاثر کرتی ہے جبکہ اس سے حکومت کو 230 ارب روپے سے زائد کا سالانہ خسارہ ہوتا ہے۔
سرکاری حکام نے ڈان کو بتایا تھا کہ اگرچہ حتمی ڈی ریگولیشن فریم ورک وفاقی کابینہ اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی منظوری سے سامنے آئے گا لیکن پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمتوں کی ڈی ریگولیشن کا مطلب یکساں قیمتوں کا خاتمہ ہوگا جس کے بعد تیل کمپنیاں مختلف شہروں اور قصبوں کے لیے اپنی قیمتیں مقرر کرنے کے لیے آزاد ہو جائیں گی۔
قانون کے تناظر میں انہوں نے بتایا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پہلے ہی ڈی ریگولیٹڈ تھیں اور حکومت صرف مٹی کے تیل کی قیمتیں طے کرتی ہے۔
دیگر مصنوعات جیسے پیٹرول، ہائی اسپیڈ ڈیزل اور لائٹ ڈیزل آئل کو حکومت صرف ٹیکس کی شرح جیسے پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی، کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس وغیرہ اور ڈیلرز اور مارکیٹنگ کمپنیوں کے لیے منافع کا مارجن طے کرتی ہے جبکہ اوگرا اور وزارت خزانہ آئی ایف ای ایم ایڈجسٹ کرنے کی ذمہ دار ہیں جوکہ فی الحال پاکستان بھر میں اس کی یکساں قیمتوں کو یقینی بناتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وزارت خزانہ بغیر اطلاع کے ایکس ڈپو قیمتوں کا اعلان کرتی ہے جبکہ پیٹرول اسٹیشنز اپنی خوردہ قیمتیں خود طے کرتے ہیں۔
دوسری جانب تیل کی صنعت بھی حکومت کی جانب سے طے کردہ ٹیکس شرح کی بنیاد پر فرنس آئل اور ہائی آکٹین بلینڈنگ کمپوننٹ (ایچ او بی سی) کے لیے اپنے نرخ مقرر کرتی ہے۔
حکومت کی جانب سے ایچ او بی سی کی طرز پر پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کو مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کرنے کا امکان ہے۔
اس کے نتیجے میں آئی ایف ای ایم کا طریقہ کار بھی ڈی ریگولیٹ ہوگا، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک آئل کمپنی سے دوسری آئل کمپنی میں تیل کی مصنوعات کی قیمتیں مختلف ہوں گی۔
یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا تھا کہ جب آئل کمپنیز مشاورتی کونسل جوکہ تین درجن سے زائد آئل کمپنیوں اور ریفائنریوں کی ایک ایسوسی ایشن ہے، نے رواں ہفتے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کو خط لکھ کر خبردار کیا تھا کہ ’ایران سے پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ کی وجہ سے ملک میں بھاری سرمایہ کاری کے مواقع کو سنگین خطرہ لاحق ہے‘۔