190 ملین پاؤنڈز کیس: عمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت 29 اپریل تک ملتوی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی 190 ملین پاؤنڈز ریفرنس میں ضمانت کی درخواست پر سماعت 29 اپریل تک ملتوی کردی۔
ڈان نیوز کے مطابق چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے مقدمے کی سماعت کی، قومی احتساب بیورو (نیب) کے پراسیکیوٹر امجد پرویز عدالت میں پیش نہ ہوئے، اس پر نیب نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کردی۔
پراسیکیوٹر نیب نے بتایا کہ کیس مقرر ہونے سے متعلق معلوم نہیں ہو سکا اس لیے امجد پرویز نہیں آ سکے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ضمانت کی درخواست ہے، ہر ہفتے آٹومیٹک مقرر ہوتی ہے، آج ہم بانی پی ٹی آئی کے وکیل کے دلائل سنیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ضمانت کی درخواست پر آپ ایسے نہ کریں، تفتیشی افسر کہاں ہے؟ تفتیشی افسر کیوں موجود نہیں؟ کیا اس کے وارنٹ جاری کریں؟
بعد ازاں سابق وزیر اعظم عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ این سی اے نے برطانیہ میں رقم منجمد کی جو معاہدے کے ذریعے پاکستان منتقل کی گئی، 190 ملین پاؤنڈز کی منجمد کردہ رقم معاہدے کے تحت سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے دریافت کیا کہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں کیسے آگئی؟ وکیل نے بتایا کہ ایک ’ڈیڈ آف کانفیڈنشیالٹی‘ پر دستخط ہوئے، شہزاد اکبر دستخطی تھے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ماید کہا کہ کیا سپریم کورٹ کی مرضی بھی اس میں شامل تھی؟ لطہف کھوسہ نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے ایک اکاؤنٹ کھول رکھا تھا اس کے متعلق بتاتا ہوں، 460 بلین کی رقم منتقلی کے لیے سپریم کورٹ نے اکاؤنٹ کھولا تھا، 23 نومبر 2023 کو سپریم کورٹ نے رقم حکومتِ پاکستان کو واپس بھیج دی، بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی اس رقم کے کوئی بینیفشری نہیں ہیں۔
جسٹس طارق جہانگیری نے دریافت کیا کہ یہ رقم جرم سے حاصل کردہ تھی؟ یہ کس وجہ سے منجمد ہوئی؟ سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ یہ مشکوک رقم تھی جسے بعد میں کلیئر کر دیا گیا۔
عدالت نے کہا کہ این سی اے اور ملک ریاض کے درمیان معاہدے پر وزیراعظم کے معاون کیوں دستخط کر رہے ہیں؟ کیا اس 17.1 کروڑ پاؤنڈز کی رقم سے 460 ارب کی رقم پوری ہو گئی؟ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے اکاؤنٹ میں پیسہ نہیں آیا؟
وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ لوٹ کر کھا گئے لیکن انہوں نے ایک ڈھیلا نہیں لیا، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیے کہ یہ تو این سی اے اور ملک ریاض کا نجی معاہدہ تھا، یہ معاملہ کابینہ کے سامنے کیسے آیا اور اس میں وزیراعظم کی منظوری کیسے آ گئی؟
وکیل نے کہا کہ این سی اے نے کابینہ کی منظوری کی شرط رکھی تھی، شہزاد اکبر نے کابینہ کے سامنے ایک نوٹ رکھا اور کابینہ نے منظوری دے دی، بانی پی ٹی آئی نے بطور وزیراعظم منظوری دی کہ پیسہ واپس پاکستان آ جائے، کابینہ میں سے صرف بانی پی ٹی آئی کو ملزم بنا دیا گیا، سمجھ نہیں آتی یہ ریفرنس کیسے بنایا گیا؟
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ القادر یونیورسٹی ایک ٹرسٹ ہے، اس کے ٹرسٹیز ہیں، ملک ریاض نے سوہاوہ میں یونیورسٹی کے لیے 458 کنال زمین فراہم کی، 458 کنال زمین پہلے زلفی بخاری اور پھر ٹرسٹ کے نام منتقل کی گئی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ بشریٰ بی بی کی بھی ضمانت کی درخواست دائر ہے؟ وکیل نے بتایا کہ نہیں، بشریٰ بی بی کے تو وارنٹ ہی جاری نہیں کیے گئے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اچھا صرف بانی پی ٹی آئی گرفتار ہیں، بشری بی بی نہیں ہیں؟
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے دریافت کیا کہ کوئی رقم اکاؤنٹس میں منتقل نہیں کی گئی؟ لطیف کھوسہ نے بتایا کہ نہیں، ملک ریاض نے پہلے زمین لے کر دی پھر خود ہی تعمیر بھی کر کے دی، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے استفسار کیا کہ اسٹوڈنٹس وہاں پر پڑھ رہے ہیں؟ وکیل نے بتایا کہ جی بالکل بچے وہاں پڑھ رہے ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے بانی پی ٹی آئی کی ضمانت کی درخواست پر سماعت 29 اپریل تک ملتوی کر دی
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ 29 اپریل کو نیب پراسیکیوٹر امجد پرویز دلائل دیں گے۔
یاد رہے کہ 23 اپریل کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کیس کی سماعت میں مزید 6 گواہوں کے بیان قلمبند کر لیے گئے تھے۔
واضح رہے کہ 6 اپریل کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کیس کی سماعت میں مزید ایک گواہ کا بیان قلمبند کر لیا گیا تھا۔
پس منظر
یاد رہے کہ رواں سال 6 جنوری کو ہونے والی سماعت میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ پر فردِ جرم عائد نہیں ہوسکی تھی۔
بعد ازاں 6 مارچ کو ہونے والی سماعت میں نیب کے 3 گواہوں کے بیانات قلمبند کرلیے گئے تھے۔
عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سمیت ریفرنس کے 6 شریک ملزمان کو اشتہاری اور مفرور مجرم قرار دے دیا تھا۔
اس سے قبل 4 جنوری کو بھی عمران خان اور ان کی اہلیہ پر فرد جرم نہیں عائد ہوسکی تھی اور 190 ملین پاؤنڈز ریفرنسز میں درخواست ضمانت پر نیب کی جانب سے دلائل دیے گئے تھے جس کے بعد سماعت 6 جنوری تک ملتوی کردی گئی تھی۔
واضح رہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سینکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔
یہ کیس القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے مبینہ طور پر غیر قانونی حصول اور تعمیر سے متعلق ہے جس میں ملک ریاض اور ان کی فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے ذریعے 140 ملین پاؤنڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ حاصل کیا گیا۔
عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا، رقم (140 ملین پاؤنڈ) تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور اسے قومی خزانے میں جمع کیا جانا تھا لیکن اسے بحریہ ٹاؤن کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی وصولی میں ایڈجسٹ کیا گیا۔