مردوں کا نکاح نامے میں شرائط طے کرنا، دلہن کیلئے مشکلات کا باعث بنتا ہے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ خاندان کے مردوں کی طرف سے دلہن کے لیے نکاح کی شرائط طے کرنا ثقافتی اور سماجی لحاظ سے معمول کی بات ہے لیکن یہ مستقبل میں دلہن کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ منگل (23 اپریل) کو جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے نکاح نامے میں درج پلاٹ کے لیے دلہن کے حق کا تعین کرنے کے معاملے پر فیصلہ سنایا۔
2022 میں لاہور ہائی کورٹ نے ہما سعید نامی خاتون کے حق میں فیصلہ دیا تھا، جس نے مئی 2014 میں محمد یوسف سے شادی کی تھی۔
محمد یوسف نے اکتوبر 2014 میں اپنی اہلیہ ہما سعید کو طلاق دے دی تھی، بعدازاں انہوں نے سپریم کورٹ میں فیصلے کو اس بنیاد پر چیلنج کیا کہ نکاح نامہ کے کالم نمبر 17 میں مذکورہ پلاٹ کو مہر یا تحفہ کے طور پر نہیں دیا جاسکتا ہے۔
درخواست گزار نے استدعا کی کہ کالم نمبر 17 کا عنوان ’خصوصی شرائط‘ دوسرے کالموں سے الگ ہے، جو خاص طور پر جہیز کی شرائط کو طے کرنے کے مقاصد کے لیے فراہم کیے گئے ہیں۔
سپریم کورٹ میں اپنے تحریری بیان میں محمد یوسف نے استدعا کی کہپلاٹ ایک گھر کی تعمیر کے لیے تھا اور ان کی اہلیہ کو ان کی شادی کی مدت تک وہاں رہنا تھا۔
جسٹس من اللہ کے 10 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا کہ ’کالم نمبر 17 میں جائیداد کی تفصیل کی سادہ الفاظ میں تشریح اس طرح کے مؤقف کی تجویز یا حمایت نہیں کرتی۔‘
فیصلے میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ بنچ کے سامنے سوال یہ تھا کہ کسی بھی شک اور ابہام کی صورت میں نکاح نامہ کی شرائط و ضوابط کی تشریح کیسے کی جائے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ ’نکاح نامے پر دستخط کرتے وقت جہیز یا حق مہر سے متعلق دلہن کو اپنے حقوق کے بارے میں باخبر ہونا ضروری ہے، لہٰذا دلہن کی طرف سے بات چیت کرنے اور شرائط طے کرنے کی آزادی ہونا بہت ضروری ہے۔‘
دلہن کی رضامندی
جسٹس اطہر من اللہ نے افسوس کا اظہار کیا کہ دلہن کی جانب سے شرائط و ضوابط کا فیصلہ کرنے میں معاشرے کے پدرانہ رجحانات اور خاندان کے مردوں کے غلبے کو اکثر ثقافتی اور سماجی معمول کے طور پر دیکھا جاتا ہے، ’یہ دلہن کے لیے پریشانی اور نقصان کا باعث ہے، جس کی وجہ سے دلہن کی بغیر کسی دباؤ کے رضامندی پر منفی اثر پڑتا ہے۔
بنچ نے کہا کہ نکاح نامہ دو فریقین کے درمیان ’شادی کا معاہدہ ہے‘ اور اس کی شقوں کی تشریح ’فریقین کی نیت/ارادے کی روشنی میں‘ کی جانی چاہئے۔
بنچ نے واضح کیا کہ نکاح نامہ میں صرف عنوانات کو دیکھنا ہی کافی نہیں ہے کہ جب دونوں فریقین نے اس کی شرائط پر اتفاق کیا تو ان کا کیا ارادہ تھا۔
عدالتوں کو نکاح نامے کے مندرجات اور شرائط کی تشریح کرتے وقت دلہن کی رضامندی اور بات چیت اور شرائط و ضوابط کو طے کرنے کی اس کی آزادی کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا، یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ دلہن اپنے حقوق کے بارے میں باخبر ہے اور آزادانہ طور پر فیصلے کر سکتی ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ نکاح نامے کی شرائط میں کسی ابہام کی صورت میں فائدہ بیوی کے حق میں جانا چاہیے، اگر یہ ثابت ہو کہ اسے نکاح کے وقت اپنے حقوق سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔
بنچ نے لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے نکاح نامہ کی صحیح تشریح کی بنیاد پر شوہر کی اپیل کو مسترد کر دیا۔