بھارت میں اقلیتوں، صحافیوں اور اختلاف رائے رکھنے والوں پر حملے کیے گئے، امریکا
امریکی محکمہ خارجہ کے انسانی حقوق کے سالانہ جائزے میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں ’بڑے پیمانے پر‘ بدسلوکی کے واقعات ہوئے جبکہ ملک کے باقی حصوں میں اقلیتوں، صحافیوں اور اختلاف رائے رکھنے والوں پر حملے کیے گئے۔
خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق ایک سال قبل ایک عدالت نے حکم دیا تھا کہ کوکی کی اقلیتی مراعات کو میٹی تک بڑھایا جائے، جس کے بعد منی پور نے اپنے قبائلی کوکی-زو اور اکثریتی میتی کی آبادیوں کے درمیان شدید لڑائی دیکھی ہے، جس میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منی پور میں مئی اور نومبر کے درمیان 60 ہزار سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے۔
واشنگٹن میں بھارتی سفارت خانے کی جانب سے اس رپورٹ پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
بھارت کے باقی حصوں میں، محکمہ خارجہ نے ’متعدد واقعات‘ کی اطلاع دی جس میں حکومت اور اس کے اتحادیوں نے ’حکومت پر تنقید کرنے والے میڈیا اداروں پر مبینہ طور پر دباؤ ڈالا یا انہیں ہراساں کیا۔‘
مثال کے طور پر، محکمہ انکم ٹیکس نے 2023 کے اوائل میں بی بی سی کے دفاتر کی تلاشی لی جب اس نے ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقیدی دستاویزی فلم جاری کی۔
بھارتی حکومت نے اس وقت کہا تھا کہ تلاشی انتقامی نہیں تھی۔
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے 2023 میں اپنے پریس فریڈم انڈیکس میں بھارت کو 180 ممالک میں سے 161 نمبر پر رکھا تھا، جو ملک کی اب تک کی سب سے کم پوزیشن ہے۔
امریکی جائزے میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں نے امتیازی سلوک کی اطلاع دی ہے، جس میں تشدد کی کالز اور غلط معلومات پھیلانا شامل ہیں۔
نریندر مودی، جن کے یکم جون تک جاری انتخابات میں تیسری بار جیتنے کے امکانات ہیں، اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی پالیسیوں کا مقصد تمام بھارتی شہریوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا الزام ہے کہ نریندر مودی کے دور میں آب و ہوا خراب ہوئی ہے۔ وہ نفرت انگیز تقاریر میں اضافے، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے، شہریت کا قانون جسے اقوام متحدہ ’بنیادی طور پر امتیازی‘ قرار دیتا ہے اور غیر قانونی تعمیرات کو ہٹانے کے نام پر مسلمانوں کی املاک کی مسماری کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
اگرچہ امریکی رپورٹ حالیہ برسوں میں پیش آنے والے اسی نوعیت کے واقعات کی عکاسی کرتی ہے، سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ واشنگٹن، نئی دہلی پر عوامی سطح پر تنقید سے رکا ہوا ہے کیونکہ امریکا کو امید ہے کہ بھارت، توسیع پسند چین کے خلاف جوابی کارروائی کے طور پر کام کرے گا۔