24 سال تک اپنے ہی گھر کے تہ خانے میں قید رہنے والی لڑکی کی لرزہ خیز داستان
یہ تحریر جنسی استحصال کے خلاف آگاہی کے مہینے (اپریل) اور تاریخ میں آج کے دن سامنے آنے والے ہولناک حقائق کی مناسبت سے شائع کی جارہی ہے۔
دوپہر کا وقت تھا، سورج بادلوں میں چھپا تھا جبکہ ہلکی خشک سرد ہوائیں چل رہی تھیں۔ ایک ایمبولینس تیز رفتاری سے سڑکوں پر دوڑتی ہسپتال کے احاطے میں داخل ہوتی ہے۔ ایمبولینس میں موجود مریض کو ہسپتال لے جایا جاتا ہے جہاں ایمرجنسی کا ڈاکٹر اس کی حالت دیکھ کر گہری تشویش میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے سینیئرز کو مریض کی حالت دیکھنے بلاتا ہے اور وہ اس 19 سالہ بے ہوش لڑکی کی سفید پیلی رنگت اور اس کا لاغر کمزور بدن دیکھ کر پولیس سے رابطہ کرتے ہیں کیونکہ یہ وہ عام مریض نہیں جو روزانہ ہسپتال میں آیا کرتے ہیں۔
اسی اثنا میں ایک عمر رسیدہ شخص ہسپتال آتا ہے جو مبینہ طور پر کہتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں جو تحریر ہے وہ اس لڑکی کی والدہ نے لکھی ہے لیکن پولیس مطمئن نہیں ہوتی اور اس لڑکی کی والدہ کو ڈھونڈنے کی کوششوں کا آغاز کرتی ہے۔
لڑکی کو ہسپتال میں داخل ہوئے ایک ہفتہ گزر جاتا ہے اور ایک دن ہسپتال کا عملہ پولیس کو مطلع کرتا ہے کہ ایک مشکوک عورت 19 سالہ لڑکی سے ملنے آئی ہے۔ پولیس فوراً پہنچتی ہے اور عورت کو تحویل میں لےکر پوچھ گچھ کرتی ہے لیکن وہ کچھ بتانے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ دباؤ ڈالنے پر وہ پولیس کے سامنے شرط رکھتی ہے کہ میں صرف اسی صورت میں سچ بتاؤں گی اگر مجھ سے وعدہ کیا جائے کہ زندگی بھر مجھے ’اس شخص‘ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ پولیس شرط مان لیتی ہے اور پھر اگلے دو گھنٹے تک 42 سالہ عورت وہ ہولناک انکشافات کرتی ہے جنہیں جاننے کے بعد آپ زندگی بھر انہیں بھلا نہیں پائیں گے۔
الزبتھ فرٹزل کی لرزہ خیز داستان
یہ 1980ء دہائی کے اوائل کی بات ہے کہ جب آسٹریا کے شہر ایمسٹیٹن میں جوزف فرٹزل نامی انجینئر اپنے گھر کے نچلے حصے یعنی بیسمنٹ کو وسعت دینے کے لیے تعمیراتی کام میں مصروف تھا۔ جوزف ایک انتہائی نفیس اور خوش اخلاق شخص تھا جسے اپنے کام سے بہت محبت تھی اور اس کی بیوی روسمیری اور اس کے سات بچے بھی اس سے بہت خوش تھے سوائے ان کی چوتھی اولاد الزبتھ فرٹزل، جو اپنے باپ کے گھناؤنے چہرے سے واقف تھی۔
اگست 1984ء کو جوزف نے اپنی بیٹی الزبتھ فرٹزل سے کہا کہ وہ بیسمنٹ کے دروازے کو ٹھیک کرنے میں اس کی مدد کرے۔ 18 سالہ لڑکی اپنے باپ کے ساتھ دروازہ پکڑے کھڑی ہوتی ہے کہ اچانک اس کا باپ اسے اندر دھکیل کر باہر سے دروازہ بند کردیتا ہے اور یہاں سے فرٹزل کیس کا لرزہ خیز آغاز ہوتا ہے۔
بند دروازے کے پیچھے الزبتھ خوب چیختی چلاتی ہے لیکن اس کی آواز کسی کو سنائی نہیں دی، وہیں اوپر اس کی والدہ روسمیری اپنی بیٹی کی اچانک گمشدگی سے شدید پریشان ہوتی ہے اور اپنے شوہر کے ہمراہ پولیس میں رپورٹ درج کروانے جاتی ہے۔ پولیس ان سے بھی تفتیش کرتی ہے، روسمیری کچھ نہیں جانتی تھی کہ اس کی بیٹی کہاں ہے البتہ جوزف سب جاننے کے باوجود پولیس کی تفتیش سے باآسانی کلین چٹ حاصل کرلیتا ہے۔
ایک ماہ بعد جوزف پولیس کو ایک نوٹ دیتا ہے جو بظاہر اس کی بیٹی الزبتھ نے لکھا ہوتا ہے نوٹ میں لکھا تھا کہ میں الزبتھ اپنی فیملی کے ساتھ نہیں رہ سکتی اور ساتھ ہی اس نے نوٹ میں اپنے والدین کو دھمکی دی تھی کہ اسے تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں ورنہ وہ یہ ملک چھوڑ دے گی۔ روسمیری مطمئن نہیں ہوتی لیکن وہ ہمت ہار دیتی ہے جبکہ پولیس حکام بھی چند ماہ بعد اس کی تلاش بند کردیتے ہیں۔
دوسری جانب گھر میں بنے خفیہ تہ خانے میں الزبتھ فرٹزل گھٹ گھٹ کر زندگی کے دن گزار رہی تھی۔ یہ تہ خانہ جوزف فرٹزل نے مکمل منصوبہ بندی سے بنایا تھا جس میں دو بیڈرومز، ایک باتھ روم، کچن اور لیونگ ایریا بھی موجود تھا اور ساتھ ہی ایک ساؤنڈ پروف ایریا تھا جو باہر آوازیں جانے نہیں دیتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ گھر میں کسی کو اس کی چیخوں کی آواز نہیں سنائی دی۔ شروع شروع میں اس کا باپ جوزف اسے زبانی استحصال کا نشانہ بناتا تھا لیکن قید میں دو ماہ گزر جانے کے بعد ایک دن جوزف نے اس کا ریپ کیا اور ایسا آنے والے کئی دنوں تک ہوتا رہا۔
الزبتھ فرٹزل جب 11 سال کی تھی تو تب سے جوزف اسے ہراساں کرتا تھا، اسی وجہ سے ایک بار وہ گھر سے فرار ہوکر آسٹریا کے شہر ویانا چلی گئی تھی لیکن چونکہ وہ بالغ نہیں تھی تو پولیس اسے تلاش کرکے واپس گھر لے آئی تھی۔
قید اور اپنے ہی باپ کی جانب سے ریپ کا نشانہ بنائے جانے کے دو سال بعد نومبر 1986ء میں الزبتھ فرٹزل حاملہ ہوگئی لیکن بعد ازاں اس کا اسقاطِِ حمل ہوگیا۔ دو سال بعد 30 اگست 1988ء کو اس کی بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام الزبتھ نے کرسٹن رکھا۔ چونکہ وہ قید تھی اس لیے اس نے تنہا کسی کی مدد کے بغیر بیٹی کو جنم دیا۔ اس کے بعد یکم فروری 1990ء کو اس کا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اسٹیفن رکھا۔
29 اگست 1992ء کو ایک اور بیٹی لیسا پیدا ہوئی جسے تہ خانے میں پالنا مشکل ہورہا تھا کیونکہ وہ بچی کسی بیماری کی وجہ سے بہت رویا کرتی تھی۔ 9 ماہ کی عمر میں جوزف نے لیسا کو ٹوکری میں ڈالا اور اوپر اپنے گھر کے دروازے کی چوکھٹ پر رکھ دیا، ساتھ ہی الزبتھ کی رائٹنگ میں ایک خط بھی چھوڑا جس میں لکھا تھا کہ وہ اس بچی کو پال نہیں سکتی اس لیے اسے اس کے نانا نانی کے پاس چھوڑ رہی ہے۔ روسمیری کو لگا واقعی یہ خط الزبتھ نے لکھا ہے اور اسی ملک میں وہ ان سے دور آزاد زندگی گزارنا چاہتی ہے لہٰذا روسمیری اور جوزف نے بچی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔
تہ خانے میں موجود بچے بڑے ہورہے تھے جن کے لیے یہ جگہ کم پڑ رہی تھی لیکن باہر سے کسی کو کام کے لیے بلایا نہیں جاسکتا تھا تو جوزف نے الزبتھ اور بچوں کو ہاتھ سے کھدائی کرنے پر مجبور کیا اور یوں تہ خانے کو 580 اسکوائر فٹ تک وسعت دی گئی۔
اسی اثنا میں 26 فروری 1994ء کو الزبتھ نے چوتھے بچے کو جنم دیا۔ بچی کا نام مونیکا تھا جسے جوزف نے 10 ماہ کی عمر میں باسکٹ میں ایک نوٹ کے ساتھ فرٹزل ہاؤس کی چوکھٹ پر رکھ دیا۔ لیکن اس بار روسمیری کو الزبتھ کی جانب سے کال بھی موصول ہوئی جوکہ بہ ظاہر جوزف نے الزبتھ کی آواز ریکارڈ کرکے روسمیری کو کی تھی۔
28 اپریل 1996ء کو الزبتھ نے جڑواں بچوں کو جنم دیا جن میں سے ایک پیدائش کے تین دن بعد مر گیا جبکہ دوسرے بیٹے الیگزینڈر کو مونیکا اور لیسا کی طرح جوزف نے اپنے گھر کی چوکھٹ پر رکھ دیا۔ مردہ بچے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جوزف نے اس کی لاش کو اپنے گھر کے بیک یارڈ میں جلادیا تھا لیکن یہ ثابت نہیں ہوسکا ہے۔
16 دسمبر 2002ء کو الزبتھ ساتویں بچے کو جنم دیتی ہے جس کا نام اس نے فیلکس رکھا۔ جوزف اور روسمیری مزید بچوں کی پرورش نہیں کرسکتے تھے اس لیے جوزف نے فیلکس کو الزبتھ اور دو بیٹوں کے ساتھ تہ خانے میں ہی رکھا۔
رہائی کیسے ہوئی؟
الزبتھ کی اسیری کو 24 سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور اس عرصے میں تہ خانہ ساؤنڈ پروف ہونے کے باوجود کسی نہ کسی طرح آوازیں باہر ضرور گئیں۔ ہمسایوں اور روسمیری نے آوازیں سنیں لیکن جوزف نے کہا کہ یہ واٹر لائنز کی آواز ہیں اور کسی نے اتنی توجہ نہیں دی اور شاید کبھی کبھی قدرت ہمیں اشارے دے رہی ہوتی ہیں جن پر آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئیں۔
پیدائش سے ہی تہ خانے میں رہنے والی الزبتھ کی بڑی بیٹی کرسٹن نے سورج کبھی نہیں دیکھا تھا جس کی وجہ سے وہ وٹامن ڈی کی شدید کمی کا شکار تھی اور اسے متعدد بیماریاں لاحق تھیں۔ 19 سالہ لڑکی بےہوش ہوگئی جس پر الزبتھ اپنے باپ کے آگے گڑگڑائی کہ کرسٹن کو ہسپتال لے جائے۔ جوزف نہ چاہتے ہوئے بھی اسے ہسپتال لے گیا اور وہ گردے فیل ہونے کی وجہ سے کوما میں چلی گئی۔ یہ وہی لڑکی ہے جس کا ذکر ہم نے تحریر کے آغاز میں کیا تھا۔
19 اپریل 2008ء کو جوزف کی جانب سے خط دیے جانے کے بعد جب پولیس نے الزبتھ کی تلاش شروع کی تو جوزف گھبرا گیا۔ ادھر الزبتھ روتی رہی کہ وہ اسے ہسپتال جاکر بیٹی سے ملنے دے۔ ایک ہفتے بعد 26 اپریل کو نہ جانے اس کے دل میں رحم آگیا کہ اس نے الزبتھ کو ہسپتال جانے کی اجازت دے دی لیکن اس شرط پر کہ وہ بیٹی سے مل کر واپس آجائے گی اور کسی کو جوزف کے بارے میں نہیں بتائے گی۔ الزبتھ کو ایسا کرنا پڑا اور یوں اسٹیفن، فیلکس اور الزبتھ کو جوزف نے رہا کردیا۔ اوپر آکر روسمیری کو جوزف نے بتایا کہ الزبتھ گھر واپس آگئی ہے۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ مجرم چاہے کتنا ہی شاطر کیوں نہ ہو وہ کبھی نہ کبھی تو قانون کے چنگل میں ضرور آتا ہے۔
جوزف کی گرفتاری
پولیس کی تفتیش کے بعد آدھی رات کو جب الزبتھ کی کہانی مکمل ہوئی تو پولیس فوراً جوزف کو گرفتار کرنے فرٹزل ہاؤس پہنچ گئی۔ اس نے ابتدائی طور پر انکار کردیا لیکن پولیس نے خفیہ تہ خانہ دریافت کرلیا۔ الزبتھ کی والدہ روسمیری کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کے گھر کے نیچے کیا ہورہا تھا اور اس کے شوہر کو پولیس کیوں گرفتار کررہی تھی۔
چونکہ جوزف نے انکار کردیا تھا کہ یہ بچے اس کے نہیں اس لیے پولیس نے تمام بچوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا اور 29 اپریل کو جب اس کے نتائج آئے تو الزبتھ کی کہانی سچ ثابت ہوئی۔
ٹرائل
گرفتاری کے ٹرائل کا آغاز ہوا جس میں صحتِ جرم سے انکار کردیا۔ وکیلِ دفاع نے بھی خوب کوشش کی لیکن تمام شواہد جوزف کے خلاف تھے۔ جولائی 2008ء میں پولیس کو دیے گئے 11 گھنٹے پر مشتمل تفصیلی بیان کو عدالت میں جیوری کے سامنے پیش کیا گیا جس کے ہولناک پہلوؤں کو جیوری 2 گھنٹے سے زیادہ نہیں سن پائی۔ الزبتھ کے بچوں نے پولیس کو بیان ریکارڈ نہیں کروایا اس لیے صرف الزبتھ کے بیان پر یہ کیس چلایا گیا۔
چونکہ الزبتھ کی شرط تھی کہ وہ اپنے باپ کا چہرہ زندگی میں نہیں دیکھنا چاہتی اس لیے وہ کسی پیشی میں حاضر نہیں ہوئی سوائے ایک بار کے۔
مارچ 2009ء کے 4 روزہ حتمی ٹرائل کے دوسرے دن الزبتھ وزیٹر گیلری میں بھیس بدل کر آئی اور جوزف نے اسے پہچان لیا۔ جوزف کے وکیل دفاع نے تصدیق کی کہ جب الزبتھ کا ویڈیو بیان عدالت میں چلایا جارہا تھا تب وہ وہاں موجود تھی، جوزف نے الزبتھ کو دیکھا اور یہ وہی وہ لمحہ تھا جب اس کا دل بدل گیا۔ اگلے روز جوزف نے خود پر لگائے گئے چارجز کے خلاف دائر اپنی تمام اپیلیں واپس لے لیں۔
19 مارچ 2009ء کو عدالت نے جوزف کو عمر قید کی سزا سنائی۔ اس نے سزا کے خلاف اپیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ذہنی بیماریوں کی وجہ سے اسے مینٹل اسائلم میں بھی وقت گزارنا پڑا البتہ رواں سال جنوری میں عدالت نے اسے عام جیل میں منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر وہ جیل منتقل ہوجاتا ہے تو اسے پیرول مل سکتا ہے۔
واقعے کے اثرات
الزبتھ کو جوزف نے جب قید کیا تو تب اس کی عمر 18 سال تھی لیکن جب اسے اسیری سے رہائی ملی تو اس کی عمر 42 ہوچکی تھی۔ 24 سال قید میں گزارنے کے بعد الزبتھ فرٹزل اور اس کے بچے اب عام زندگی کی جانب آنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جب اسٹیفن اور فیلکس کو تہ خانے سے باہر نکالا گیا تو اسٹیفن اس وقت ٹھیک سے چل نہیں سکتا تھا کیونکہ لمبے قد کی وجہ سے اسٹیفن کو تہ خانے میں جھک کر چلنا پڑتا تھا۔ اس کے علاوہ ان دونوں میں بہت سی بیماریاں تھیں جن کے علاج کے لیے انہیں فوری ہسپتال منتقل کیا گیا۔ کرسٹن کا علاج بھی ہوا اور وہ کوما سے باہر آگئی۔
جوزف کی گرفتاری کے فوراً بعد الزبتھ نے روسمیری کو خط لکھا جس میں اس نے تمام حقیقت اپنی والدہ کو بتائی اور کہا کہ پولیس اسے اور اس کے بچوں کو حفاظتی مقام منتقل کررہی ہے تو آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں، روسمیری راضی ہوگئی۔
آج روسمیری، الزبتھ اور اس کے 7 بچے اپنے نام تبدیل کرکے آسٹریا کے کسی گاؤں میں رہائش پذیر ہیں۔ بچوں کو عام زندگی دینے کے لیے الزبتھ نے انہیں کیمرے کی آنکھ سے دور رکھا۔ آج جس مقام پر وہ رہتے ہیں وہاں پولیس کی سیکیورٹی انتہائی سخت ہے اور وہ باہر کے لوگوں سے بہت کم ہی ملتے ہیں اور جن سے ملتے ہیں وہ ان لوگوں کے سیاہ ماضی کے حوالے سے واقف نہیں۔