سری لنکا تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے کیسے نکلا؟
کڑکتی دھوپ اور شدید گرمی کے باوجود کولمبو میں صدارتی سیکریٹریٹ کے قریبی ساحل پر واقع مشہور پارک گیلے فیس گرین کے اردگرد جمع لوگ توانائی سے بھرپور نظر آرہے ہیں۔ نوجوان خوبصورت آئس کریم ٹرکوں کے گرد جمع ہیں، سیاح فائیو اسٹار عمارتوں سے باہر آرہے ہیں جبکہ خریداروں کی بڑی تعداد کا اس علاقے میں رش ہے۔
یہ مثبت منظر اس معاشی افراتفری سے انتہائی مختلف ہے جس کی لپیٹ میں سری لنکا محض دو سال قبل تھا۔ اقتصادی چیلنجز انتہائی سنجیدہ نوعیت کے تھے لیکن انہیں حل کیا جاسکتا تھا مگر سری لنکن حکومت نے یکے بعد دیگرے سیاسی مفاد کے فیصلے کرکے معاشی بحران کو مزید بگاڑ دیا اور یوں ملک دیوالیہ ہوگیا۔
اندازوں کے مطابق معاشی بحران نے انتہائی تیزی سے سیاسی بحران کی صورت اختیار کی۔ یہی پارک جس کا تحریر کے آغاز میں ذکر کیا گیا، وہ حکومت مخالف مظاہروں کا مرکز بن گیا تھا۔ صدر نے فوری استعفیٰ دیا اور بحفاظت ملک سے باہر جانے کی کوشش کی لیکن ایسے میں وہ تصویر سامنے آئی جس نے دنیا بھر کی خوب توجہ سمیٹی کہ سری لنکن قوم نے کولمبو میں ایوانِ صدر پر قبضہ کرلیا۔
لوگوں کو شاید یاد نہ ہو لیکن سر ی لنکا کی اس بدقسمت صورتحال کو پاکستان میں بہت قریب سے دیکھا گیا بالخصوص مرکز کی ایک جماعت جو شاید اپنی کھوئی ہوئی ساکھ دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایسا کررہی تھی، اس نے بار بار دعویٰ کیا کہ پاکستان بھی سری لنکا کی سمت میں گامزن ہے۔
اب یہ تمام افراتفری تاریخ کا حصہ معلوم ہوتی ہے کیونکہ سری لنکا کے ساحل سے ٹکراتی لہریں اب سکون اور اطمینان کا پیغام دیتی ہیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطابق مہنگائی کی شرح 70 فیصد سے 5.9 فیصد تک آچکی ہے جبکہ ڈیڑھ سالہ بحران کے بعد اب معیشت پھل پھول رہی ہے۔ معاشی حالت میں یہ تبدیلی شاید کچھ لوگوں کو اس بات پر آمادہ کرسکے کہ استحکام کا حصول ہمیشہ سے ممکن تھا۔ جس طرح پانی کی بوتل کو خوب ہلانے کے بعد ایک جگہ رکھ دیا جائے تو پانی ٹھہر جاتا ہے، بالکل اسی طرح افراتفری کی لپیٹ میں آیا نظام بھی بلآخر اندرونی طور پر حل ہوسکتا ہے، ہیں نا؟ بالکل غلط۔
سری لنکا کی شاندار و بے مثال معاشی بحالی صدر رانیل وکرماسنگھے کی زبردست قیادت کے بغیر ممکن نہ تھی۔ ملک کے تجربہ کار سیاستدان رانیل وکرماسنگھے نے ایک ایسے وقت میں ملک کی کمان سنبھالی کہ جب کوئی دوسرا سیاسی رہنما آئی ایم ایف کی انتہائی ضروری معاشی اصلاحات کے بعد یہ ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھا۔ زائد ٹیکسوں کا اطلاق، مارکیٹ کی طرف سے طے شدہ شرحِ مبادلہ اور ریاستی اداروں کی نجکاری سمیت دیگر اصلاحات کے بعد سیاسی سرمائے کے لحاظ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔
لیکن رانیل وکرماسنگھے کی قائدانہ صلاحیتوں میں ایسی کیا بات تھی کہ جس نے انہیں مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ سری لنکا کو اس کی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے نکالنے میں بھی مدد دی؟ جب یہ سوال سری لنکا کی انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ماہرین کے سامنے رکھا گیا تو انہوں نے صدر رانیل وکرماسنگھے کی قائدانہ اور سیاسی تجربے کو معاشی استحکام کی کلیدی وجوہات میں سے ایک بتایا کیونکہ اس سے متعدد بین الاقوامی قرض دہندگان کے لیے اعتماد کی فضا پیدا ہوئی۔
پارلیمنٹ میں کم نمائندگی ہونے کے باوجود رانیل وکرماسنگھے عالمی سطح پر کافی مؤثر تھے۔ ان کے اسی تاثر کی وجہ سے ایک بار پھر آئی ایم ایف سری لنکا کی مدد کے لیے میدان میں اترا۔ آئی ایم ایف کو رانیل وکرماسنگھے کی صورت میں ایک قابلِ اعتماد پارٹنر ملا۔ ایک ایسا پارٹنر جو معاشی پالیسی کا تجربہ رکھنے والا شخص ہے اور وہ ان معاشی اصلاحات سے گریز نہیں کرے گا جو سری لنکا کو پائیدار اقتصادی بحالی اور ترقی کے لیے درکار ہیں۔
ان کی قیادت، تجربہ، حکمت عملی اور ساکھ نے انہیں اس قابل بنایا کہ وہ اقتصادی ایڈجسٹمنٹ کے سب سے مشکل مرحلے پر عمل درآمد کریں، یعنی مارکیٹ کی جانب سے طے شدہ شرحِ مبادلہ جس کی وجہ سے سری لنکن روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں اپنی نصف فیصد کم ہوئی۔ سخت اقتصادی فیصلوں میں جتنا زیادہ وقت لیا جاتا، صورتحال اتنی ہی زیادہ خراب ہوتی۔
اس کے علاوہ سری لنکا کی معاشی بحالی کے پیچھے ادارہ جاتی ڈھانچہ بھی ایک وجہ ہے۔ 1978ء کے بعد سے سری لنکا کے صدور انتہائی طاقتور تھے جو ریاست اور حکومت دونوں کے سربراہ تھے۔ ایک جانب جہاں سری لنکا کی ’ایگزیکیو پریزیڈینسی‘ کو حد سے زیادہ خودمختار ہونے پر متعدد مواقع پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا وہیں انہیں اختیارات نے رانیل وکرماسنگھے کو اقتصادی اصلاحات کے ایجنڈے پر کام کرنے کے قابل بنایا جو شاید ایک تقسیم شدہ پارلیمنٹ کی وجہ سے ممکن نہ ہوپاتا۔
بڑے پیمانے پر کیے جانے والی ان اقتصادی ایڈجسٹمنٹ کی قیمت سری لنکا کو سماجی طور پر ادا کرنا پڑی۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق عالمی بینک نے انکشاف کیا کہ 2024ء میں سری لنکا میں شرحِ غربت 26 فیصد ہوگئی جوکہ 2019ء میں 11 فیصد تھی۔ اس کے علاوہ نہ صرف 70 فیصد افراطِ زر نے معیارِ زندگی پر منفی اثرات مرتب کیے اور بہت سے چھوٹے کاروبار مستقل طور پر بند ہوئے وہیں ملک میں برین ڈرین (روزگار یا دیگر وجوہات کی غرض سے ملک چھوڑنے والے) میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔
اس کے باوجود یہ ضروری نہیں کہ سری لنکا کی اس کہانی کا اختتام خوشگوار ہو۔ اس کے بجائے رانیل وکرماسنگھے شاید شیکسپیئر کے لکھے ہوئے ٹریجک ہیرو کی طرح ہیں جو عظیم شخصیت ہونے کے باوجود زوال کا شکار ہے کیونکہ سری لنکا کو اب بھی بہت سے ایسے خطرات کا سامنا ہے جو معاشی اصلاحات پر عمل درآمد کو روک سکتے ہیں۔
سب سے پہلا خطرہ جغرافیائی سیاسی ہے، بھارت نے کچاتھیو کے چھوٹے سے جزیرے پر دعویٰ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی ملکیت خود بھارت نے 1974ء میں سری لنکا کو منتقل کی تھی۔ حکومتی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیرِ خارجہ نے اچانک سے اس معاملے پر شور مچانا شروع کردیا ہے جس کا مطلب ایسے حالات پیدا کرنا ہے جن سے جزیرہ بھارت کے حوالے کردیا جائے۔
یہ ممکن ہے کہ بی جے پی نے ایسا حالیہ انتخابات کے پیشِ نظر بالخصوص تامل ناڈو میں زیادہ نشستیں جیتنے کے لیے کیا ہو جہاں وہ 2019ء میں کوئی نشست حاصل نہیں کرپائی تھی۔ لیکن بھارتی خارجہ پالیسی اور جزیرے کے حوالے سے بھارت کے گزشتہ خراب تجربے اور معیشت کے باعث معاملات ممکنہ طور پر جنوب کا رخ کرسکتے ہیں۔
دوسرا خطرہ آئندہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کی وجہ سے سیاسی بے یقینی کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ مہنگائی اور غربت کی بلند شرح نے کارل مارکس کے نظریات والی جنتا ویمکتھی پرامونا (جے وی پی) کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ جے وی پی نہ صرف پارلیمنٹ کی بڑی جماعت بن کر سامنے آسکتی ہے بلکہ اس کے رہنما صدارتی انتخابات بھی جیت سکتے ہیں۔ جے وی پی ریاستی اداروں حتیٰ کہ خسارے کا سامنا کرنے والے اداروں کی نجکاری کی مخالفت کرچکی ہے اور اس نے جو پالیسیاں واضح کی ہیں وہ بھی موجودہ معاشی اصلاحات کے خلاف ہیں۔
جے وی پی شاید انتخابات میں کامیاب نہ ہوپائے لیکن ’غیرمنصفانہ‘ اصلاحات کو تبدیل کرنے کا ان کا بیانیہ نظر میں آرہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رانیل وکرماسنگھے کوشش کررہے ہیں کہ رواں سال انتخابات سے قبل قانون سازوں کو پالیسی کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے مختلف اقتصادی اصلاحات کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے قائل کرسکیں۔
سری لنکا اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے کیسے نکلا، اس کہانی میں فلم ساز ہچکوکیئن کی فلموں کی طرح تھرل ہے۔ صدر رانیل وکرما سنگھے نے کمالات کیے ہیں لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ان کی قسمت ایک ٹریجک ہیرو جیسی ہوگی یا نہیں۔ شاید پاکستان کو بھی اپنی معیشت کو معاشی اصلاحات اور بحالی کی طرف مستقل سفر پر گامزن کرنے کے لیے رانیل وکرماسنگھے جیسے ٹریجک ہیرو کی ضرورت ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔