جے یو آئی (ف) کی امیدوار کی غلط شناخت کا معاملہ: الیکشن کمیشن و دیگر کو نوٹس جاری
مخصوص نشست پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کی امیدوار صدف یاسمین کے بجائے صدف احسان کے نوٹیفکیشن کے خلاف کیس میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل اور صدف احسان کو نوٹس جاری کردیے۔
ڈان نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، اس موقع پر جے یو آئی (ف) کے وکیل کامران مرتضی نے دلائل دیے کہ جے یو آئی (ف) کی طرف سے مخصوص نشست پر امیدوار صدف یاسمین تھیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صدف احسان کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے، جسٹس علی مظہر نے دریافت کیا کہ الیکشن کمیشن ،اٹارنی جنرل کو نوٹس کیے بغیر دلائل کیسے سن سکتے ہیں ؟
وکیل کامران مرتضی نے عدالت کو بتایا کہ ایک اجنبی شخص جے یو آئی (ف) کی نشست پر ایوان میں بیٹھا ہوا ہے، جماعت نے تو صدف احسان کا نام تجویز بھی نہیں کیا تھا۔
جسٹس علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی کی فہرست میں صدف احسان کا نام ہے، وکیل کامران مرتضی نے کہا کہ صدف احسان اپنا پارٹی ٹکٹ دکھا دیں ہم حاضر ہیں۔
جسٹس علی مظہر نے کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کی تفصیلی وجوہات بھی تاحال نہیں آئی ہیں، وکیل کامران مرتضیٰ نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے صرف نوٹیفکیشن معطل کیا ہوا ہے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل اور صدف احسان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ 17 اپریل کو جے یو آئی (ف) نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اپنایا تھا کہ ایک ایسی امیدوار مبینہ طور پر شناخت چرا کر انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوگئیں جسے جماعت نے انتخابی میدان میں اتارا ہی نہیں۔
واضح رہے کہ صدف احسان پر شناخت چرانے اور خیبرپختونخوا سے خواتین کی مخصوص نشست پر جے یو آئی (ف) کی طرف سے کھڑی کی گئی دوسری امیدوار کی نقالی کرنے کا الزام ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل جے یو آئی (ف) کی جانب سے صدف احسان کی پارٹی رکنیت سے انکار کرنے کے بعد الیکشن کمیشن نے ان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا تھا۔
سینئر وکیل کامران مرتضیٰ کے توسط سے پیش کی گئی درخواست میں وضاحت کی گئی کہ جے یو آئی (ف) نے خواتین اور غیر مسلموں کی مخصوص نشستوں کے لیے اپنے امیدواروں کی الگ الگ فہرستیں الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائی۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ کمیشن کو ایک فہرست فراہم کی گئی تھی جس میں حنا بی بی سمیت 3 امیدواروں کی تمام مطلوبہ تفصیلات موجود تھیں، تاہم اصل امیدوار صدف یاسمین کی حد تک ،جن کی صدف احسان نے بظاہر شناخت چرائی، صرف ان کا نام فہرست میں شامل کیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے پارٹی کو دیگر تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا تھا۔
درخواست کے مطابق منتخب امیدواروں کا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے قبل الیکشن کمیشن کو چاہیے تھا کہ وہ صدف یاسمین کی حد تک فہرست کو مسترد کر دیتا یا پارٹی سے وضاحت طلب کرتا کہ صدف احسان صدف یاسمین ہیں یا نہیں؟
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ جے یو آئی (ف) نے حنا بی بی کو مطلع کیا کہ صدف یاسمین نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروائے کیونکہ وہ کراچی میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں اور انہوں نے انتخابات میں حصہ نا لینے کا فیصلہ کیا ہے، چنانچہ اس طرح حنا بی بی کو جے یو آئی (ف) کی تیسری معتبر امیدوار تصور کیا جانا چاہیے تھا۔
کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے وقت صدف احسان نے پارٹی کے کسی فرد، جو جانتا تھا کہ صدف یاسمین اپنی نامزدگی کی پیروی نہیں کررہی ہیں، کی ممکنہ ملی بھگت کے ساتھ خود کو صدف یاسمین کے طور پر پیش کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ان کا پہلا نام ایک جیسا تھا۔
واضح رہے کہ 19 اپریل کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے آغاز پر مخصوص نشست پر نومنتخب رکن قومی اسمبلی صدف احسان نےحلف اٹھایا تھا۔