امریکی ایوان نمائندگان سے ٹک ٹاک پر پابندی کا ایک اور بل منظور
چین کی ویڈیو شیئرنگ اور سوشل میڈیا ایپلی کیشن ٹک ٹاک پر امریکا میں پابندی کے عمل کو حقیقی شکل دیتے ہوئے امریکی ایوان نمائندگان نے سوشل میڈیا اپیلی کیشن پر پابندی کا بل کثرت رائے منظور کر لیا۔
خبر رساں ادارے سی این این کے مطابق 17 کروڑ سے زائد امریکی صارفین کی حامل ایپلی کیشن ٹک ٹاک پر پابندی کے حوالے سے امریکی ایوان نمائندگان میں ہونے والی ووٹنگ میں 360اراکین نے بل کے حق میں ووٹ دیے جبکہ اس کے برعکس بل کی مخالفت میں صرف 58 اراکین نے ووٹ دیے۔
یہ بل اب سے ایک ماہ قبل مارچ میں مںظور کیے بل سے کافی حد تک مطابقت رکھتا ہے البتہ اس میں ایپلی کیشن پر پابندی اور چینی کمپنی سے علیحدگی کے حوالے سے دی گئی مدت میں سابقہ بل کی نسبت نرمی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔
ہفتے کو منظور شدہ بل پر اگر دستخط کردیے جاتے ہیں تو اس کے بعد ٹک ٹاک کو پابندی سے بچنے کے لیے اپنی کمپنی کا نیا مالک 270 دن کے اندر ڈھونڈنا ہو گا جبکہ اس میں وائٹ ہاؤس کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ اگر اسے محسوس ہو کہ کمپنی نئے مالک کو ڈھونڈنے میں واقعی عملی کوششیں کررہی ہے تو وہ اس مدت میں مزید 90دن کا اضافہ بھی کر سکتی ہے۔
ٹک ٹاک اس بل کے خلاف ایک عرصے سے لابی کررہا تھا تاکہ اس بل کو منظوری سے روکا جا سکے جہاں ان کا موقف ہے کہ یہ بل صارفین کے حقوق کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ چھوٹے کاروباروں کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو گا۔
اس سے قبل مارچ میں بھی ٹک ٹک ٹاک پر پابندی کا بل مںظور کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اس بل کے تحت ٹک ٹاک کی پیرنٹ کمپنی(مرکزی کمپنی) ’بائٹ ڈانس‘ کو 180 دن کے اندر ایپلی کیشن فروخت کرنا ہو گی بصورت دیگر امریکا میں ایپل اور گوگل پلے اسٹور پر اس پر پابندی عائد کردی جائے گی۔
یہ قانون سازی ٹک ٹاک کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے جس کی گزشتہ کچھ عرصے کے دوران مقبولیت میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے لیکن ویڈیو شیئرنگ کی چینی کمپنی کے زیر ملکیت ہونے اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے حد سے جھکاؤ پر مغربی ممالک کئی مرتبہ اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔
یہ بل ٹک ٹاک کے لیے کافی حیران کن ہے کیونکہ وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی صدارتی مہم کے سلسلے میں دو ماہ قبل ہی ٹک ٹاک کو جوائن کیا تھا۔