مشرق وسطیٰ میں کسی بھی نئے تصادم کے خطے پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے، پیوٹن
روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے مشرق وسطیٰ کے تمام فریقین پر تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں سے گریز کریں جس سے ایک نیا تصادم شروع ہو جائے کیونکہ اس کے خطے پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق روسی صدر نے ایرانی ہم منصب ابراہیم رئیسی سے فون پر رابطے کیا جس میں مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔
ایران نے یکم اپریل کو دمشق کے قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کا بدلہ لینے کے لیے ہفتے کو رات گئے اسرائیل پر ڈرون اور میزائل داغے تھے جس کے بعد خطے میں صورتحال انتہہائی کشیدہ ہو گئی تھی۔
پیوٹن نے ایران کے حملے پر اپنے پہلے عوامی سطح پر نشر کیے گئے بیان میں کہا کہ مشرق وسطیٰ میں موجودہ عدم استحکام کی بنیادی وجہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان حل نہ ہونے والا تنازع ہے۔
کریملن کے مطابق ولادیمیر پیوٹن نے امید ظاہر کی کہ موجودہ صورتحال میں تمام فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں گے اور تصادم کے نئے دور کو روکیں گے کیونکہ اس کے خطے پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ ایران کو اس طرح کے اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا گیا لیکن یہ کارروائی محدود نوعیت کی تھی۔
انہوں نے اس موقع پر مزید کہا کہ ایران کشیدگی میں مزید اضافے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
پیوٹن کی زیر قیادت ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان جیسے عرب رہنماؤں سے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے والے روس نے 1967 کی سرحدوں کے مطابق ایک آزاد فلسطینی ریاست کی ضرورت کو نظر انداز کرنے پر مغرب پر متعدد بار برہمی کا اظہار کیا ہے۔
کریملن نے رئیسی کے ساتھ فون پر ہونے والی ملاقات کے حوالے سے بیان میں کہا کہ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مشرق وسطیٰ میں موجودہ واقعات کی بنیادی وجہ حل نہ ہونے والا فلسطین اسرائیل تنازع ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ایران اور عوس دونوں نے غزہ کی پٹی میں فوری جنگ بندی، سنگین انسانی صورت حال میں کمی اور بحران کے سیاسی اور سفارتی حل کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے کے اصولی نقطہ نظر سے اتفاق کیا۔
امریکا کے تجربہ کار اور اعلیٰ عہدوں پر تعینات جرنیلوں کا کہنا ہے کہ روس، چین، ایران اور شمالی کوریا کے درمیان بڑھتی ہوئی شراکت داری اور قرابت داری امریکا کو گزشتہ چار دہائیوں میں درپیش سب سے خطرناک چیلنجز میں سے ایک ہے۔
ایران نے روس کو زمین سے سطح پر مار کرنے والے طاقتور بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز بڑی تعداد میں فراہم کیے ہیں جو ماسکو یوکرین میں استعمال کر چکا ہے۔