’اگر بی جے پی کو دوبارہ اقتدار ملے تو میرا نام بدل دینا‘
تقسیم اور دھڑے بندی کی وجہ سے بھارتی ووٹرز تھکاوٹ کا شکار نظر آرہے ہیں۔ اسی دوران بھارتی جمہوریت کے لیے حوصلہ افزا خبر سامنے آئی ہے، بھارت میں جمعہ سے عام انتخابات کے ساتویں مرحلے کا آغاز ہورہا ہے۔ ووٹنگ کا آخری مرحلہ یکم جون کو ہوگا جبکہ ووٹوں کی گنتی 4 جون کو ہوگی۔
بھارت کے سماجی مسائل کا شکار عوام کے لیے یہ خوشخبری حقیقت کا وہ رخ نہیں جو نفرت پھیلانے والے اس ٹی وی چینلز سے ہمیں دیکھنے کو ملے گا جنہیں وہ کارپوریٹ مالکان چلاتے ہیں جو مودی کی انتخابی مہم میں اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لیکن گزشتہ ہفتے معتبر اخبار ’دی ہندو‘ میں شائع ہونے والے سروے میں دیگر اہم نکات اور نتائج سمیت قابلِ اعتبار معلومات سامنے آئیں۔
مودی کی حمایت کرنے والے میڈیا ہاؤسز کے علاوہ گردش کرنے والی رپورٹس لوک نیتی سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز (سی ایس ڈیز) کے پری پول سروے صرف ایک بات میں درست ہے۔ ان نتائج سے یہ نظرانداز کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ نریندر مودی کی انتخابی مہم ڈگمگا رہی ہے۔
دوسری طرف اسی سروے میں نریندر مودی کو ان کے کانگریس مخالفین اور ’انڈیا‘ (انڈین نیشنل ڈیولپمینٹل انکلوسیو الائنس) نامی اپوزیشن اتحاد سے مضبوط بھی دکھایا گیا ہے۔ یہ سروے اس بات کی کوئی یقین دہانی پیش نہیں کرتا کہ اگلے مراحل میں اپوزیشن کے لیے یہ صورتحال بدل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ آخری لمحات میں ہونے والے ممکنہ تفرقہ انگیز رجحان (جس حوالے سے نریندر مودی کی مہم مشہور ہے) میں ووٹرز کا کیا ردعمل ہوگا اس کا بھی قابلِ فہم اشارہ نہیں دیتا۔
نریندر مودی نے 2014ء کے انتخابات میں فرقہ وارانہ مہم کے ذریعے کامیابی حاصل کی تھی جس میں ووٹرز کی اکثریت والے اتر پردیش کے مظفرنگر میں مسلم مخالف مہم نے اہم کردار ادا کیا۔ جبکہ 2019ء میں وہ پاکستان کے خلاف فوجی محاذ پر ڈراما رچا کر کامیاب ہوئے۔
واضح ہوچکا ہے کہ ایودھیا میں عظیم الشان رام مندر کی تعمیر، بھارتی انتخابات کے حوالے سے ایک بڑا عنصر بننے میں ناکام ہوگئی ہے پھر چاہے وہ ہندو ووٹرز کے لیے ہو یا پھر بھارت میں آباد دیگر اقوام کے لیے۔ ایک طرح سے یہ مودی کی مہم میں اٹھائے گئے غلط اقدامات کی جانب اشارہ کرتا ہے کیونکہ بھارتی وزیراعظم نے اپنی تمام تر توجہ رام مندر کی تقریب کی ٹی وی کوریج شہروں اور دیہاتوں تک پہنچانے میں لگادی۔ ہندو پنڈت جیسے حلیے میں وزیراعظم کی تصاویر نے حکمران جماعت کے لیے مزید پریشانی پیدا کی۔
پری پول اسٹڈی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حق میں ہے۔ اگرچہ اگر اور مگر کے امکانات کے باوجود اس سروے میں نریندر مودی کی جماعت آگے ہے۔
سی ایس ڈیز کے سروے کے مطابق تقریباً نصف سے زائد رائے دہندگان کو بےروزگاری اور مہنگائی میں اضافے سے متعلق تشویش ہے۔ اس سروے میں حصہ لینے والے دو تہائی سے زائد افراد (یعنی 62 فیصد) جن میں شہریوں کی تعداد زیادہ (65 فیصد) ہے، نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے لیے ملازمتوں کا حصول مشکل بن چکا ہے۔ ایک نمایاں حصہ یعنی 55 فیصد (جوکہ 2019ء کے سروے میں ریکارڈ کیے گئے 40 فیصد سے کئی زیادہ ہے) نے کہا کہ کرپشن بڑھ چکی ہے جبکہ محض 19 فیصد نے کہا کہ اس میں کمی آئی ہے (2019ء میں یہی تناسب 37 فیصد تھا جس میں اب نمایاں کمی آئی ہے)۔
رائے دہندگان کے لیے رام مندر اور اس جیسے دیگر مذہبی مسائل انتہائی کم اہمیت کے حامل ہیں۔ اس حوالے سے دو طرح کے ردِعمل سامنے آرہے ہیں۔ ایک نریندر مودی جبکہ دوسرا دہلی میں کانگریس کے امیدوار کنہیا کمار کا ردِعمل جنہیں عام آدمی پارٹی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ مودی نے تقسیم کا آپشن کھلا رکھا ہے۔ وہ ملازمتوں اور کرپشن سے متعلق سوالات کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ انہیں فرقہ وارانہ تقسیم اور مذہبی جذبات کو بھڑکانا زیادہ دلکش لگتا ہے۔
بہار کے اپوزیشن لیڈر لالو یادو اور کانگریس رہنما راہول گاندھی کی ایک ساتھ مٹن بنانے کی ویڈیو ایک بار پھر گردش کررہی ہے جو ستمبر 2023ء میں پہلی بار منظر عام پر آئی تھی۔ حال ہی میں لالو یادیو کے بیٹے اور بہار کے سابق نائب وزیراعلیٰ تیجسوی یادو نے ہیلی کاپٹر میں مچھلی کھاتے ہوئے اپنی ویڈیو پوسٹ کی۔ نریندر مودی نے اس حوالے سے مؤقف اختیار کیا کہ ایسا ہندوتوا کے حامیوں کے جذبات کو مجروح کرنے اور مسلم ووٹ بینک کی خوشامد کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ تاہم ان کے اس دعوے میں مبالغہ ہے جسے نیوز لانڈری پورٹل کی جانب سے لیے گئے انٹرویوز میں ٹرین میں سوار عام شہریوں نے بھی مسترد کیا۔
یہ تبصرہ شاید مودی نے زیادہ فرقہ وارانہ خیالات رکھنے والی ممتا بنرجی کی حدود کو جانچنے کے لیے دیا ہوگا۔ مغربی بنگال کی خاتون وزیراعلیٰ بی جے پی کے جال میں نہیں پھنسیں اور انہوں نے ان بیانات کا جواب شدت پسندی سے دینے سے گریز کیا۔ مغربی بنگال کی جانب سے 42 ممبران پارلیمنٹ منتخب ہوئے جن میں سے 18 کا تعلق بی جے پی جبکہ 22 نشستیں ممتا بنرجی نے حاصل کیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس بار وہ بی جے پی کے مقابلے میں دگنی نشستیں جیتیں گی جس کا مطلب ہے کہ مغربی بنگال میں ان کے حریف کی نشستوں میں واضح کمی ہوئی ہے۔ اگر ایسے میں مودی انتخابات سے قبل فرقہ واریت یا مذہبی انتشار پھیلانے کی کوئی ممکنہ کوشش کرتے ہیں تو اس کا ہدف مغربی بنگال یا آسام ہوسکتا ہے۔
ایک جانب جہاں نریندر مودی بےروزگاری اور کرپشن کے بنیادی مسائل پر بات کرنے کو تیار نہیں وہیں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق کمیونسٹ طالب علم کنہیا کمار نے اپنی توجہ ملازمتوں، ووٹرز کے ساتھ روابط اور بھارت کی معدوم ہوتی سیکیولر شناخت پر مرکوز رکھی ہے۔ ایک طرح سے یہ اپوزیشن کے مؤقف کا خلاصہ ہے۔ کنہیا کمار دہلی سے کھڑے ہونے والے 3 کانگریس امیدواروں میں سے ایک ہیں جبکہ بقیہ 4 امیدوار عام آدمی پارٹی سے وابستہ ہیں۔
اس اتحاد نے بی جے پی کو پریشان کردیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ پہلی بار سٹنگ وزیراعلیٰ اروند کیجروال کو نریندر مودی نے ایجنسیز کے ذریعے گرفتار بھی اسی لیے کروایا کیونکہ وہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے اتحاد سے خوفزدہ تھے۔ لیکن اس سب نے اس اتحاد کو مزید مقبولیت دی اور اب اس کی بازگشت پنجاب، گوا اور سب سے اہم وزیراعظم کی اپنی آبائی ریاست گجرات میں بھی سنائی دے رہی ہے۔
کنہیا کمار شمالی دہلی سے بطور امیدوار کھڑے ہوئے ہیں جہاں 2020ء میں بڑے پیمانے پر مسلم مخالف پُرتشدد واقعات کا سامنا کیا۔ واضح طور پر ایسا متنازع شہریت کے قوانین کے خلاف ملک گیر مہم سے توجہ ہٹانے کے لیے کیا گیا تھا۔ کنہیا کمار کو امید ہے کہ وہ اس حلقے میں تبدیلی لائیں گے جہاں ہمسایہ ریاستوں کے فرقہ وارانہ گروہوں کی جانب سے بھی مسلمان مخالف جذبات کو ہوا دی گئی۔
پہلے مرحلے میں مغربی اترپردیش کی 9 نشستوں پر پولنگ ہوگی۔ یہ علاقہ جٹ کسانوں، راجپوت پاور بروکرز اور دیگر بااثر ذاتوں کا گڑھ ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے جو پہلے جس مودی کی حمایت کرتے تھے اب وہ اسی کے خلاف بغض رکھتے ہیں۔ اپنے حلقے کی فرقہ واریت کی صورتحال میں یہ کنہیا کمار کو مزید طاقتور بنائے گا اور اسی نے انہیں یہ کہنے کا حوصلہ دیا ہے کہ ’اگر بی جے پی کو دوبارہ اقتدار ملے تو میرا نام بدل دینا‘۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔