’جنسی استحصال کا شکار بچوں کو ہماری ضرورت ہے‘
میں امریکا میں ایک دستاویزی فلم کے سلسلے میں اپنی چھوٹی بہن کی معاونت کررہی ہوں۔ یہ دستاویزی فلم 1990ء کی دہائی میں بینکوں کی بندش پر تحقیقات اور ذاتی تجربات پر مشتمل ہوگی۔ تحقیق کی غرض سے تاکہ سمجھا جاسکے کہ دستاویزی فلم میں بیانیہ کیسے شامل کیا جاتا ہے، انداز اور کیمرا اینگل کیا ہوتا ہے، گزشتہ ہفتے ایک دستاویزی فلم ٹو کل اے ٹائیگر نے مجھے کافی حد تک متاثر کیا۔
میں آپ سب کو مشورہ دوں گی کہ آپ نیٹ فلکس کی اس دستاویزی فلم کو ضرور دیکھیں۔ یہ دستاویزی فلم بھارت میں گینگ ریپ کا شکار 13 سالہ لڑکی کے بارے میں ہے جو اپنے والدین کی سپورٹ سے مجرمان کے خلاف مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کرتی ہے۔
یہ ہمارے معاشرے کی اس خرابی کو بےنقاب کرتی ہے جسے غیرت اور شرم کا لبادہ اوڑھا دیا جاتا ہے اور کیسے مرد و خواتین پدرشاہی اقدار کو اہمیت دے کر نافذ کرتے ہیں۔ ریپ کے ملزمان کی وکیل دفاع اور گاؤں کی دیگر خواتین نے پوچھا کہ لڑکی کو اتنی دیر تک گھر سے باہر رہنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لڑکوں نے جو کیا وہ غلط تھا لیکن اس سب میں متاثرہ لڑکی کا کیا کردار تھا؟ وکیل نے تو یہ تک کہہ دیا کہ ایسے معاملے میں تو وہ اپنے بیٹے پر بھی بھروسہ نہیں کریں گی۔
بس یہی ہمارے معاشرے کی خرابی ہے۔
یہ یاد دہانی ہے کہ ریپ کلچر اور خواتین کے ساتھ تشدد کے واقعات کو برصغیر کے دیہی اور شہری علاقوں میں عام سمجھا جاتا ہے۔ یہ خوفناک ہے کہ جنسی تشدد کو کس طرح عام تصور کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک منٹ بھی ایسا نہیں گزرتا جہاں خواتین کو ریپ اور تشدد کا نشانہ بنانے کی دھمکی نہ دی جاتی ہو۔
2021ء میں سابق وزیراعظم عمران خان نے ریپ کے واقعات میں اضافے کے لیے مردوں کے سوا سب کو مورد الزام ٹھہرایا۔ 2005ء میں جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ خواتین کینیڈا کا ویزا حاصل کرنے کے لیے ریپ کا رونا روتی ہیں۔ سیاسی اور مذہبی رہنماؤں اور ان کی خواتین حامیوں کے غلط بیانات کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے ان تبصروں کا ’سیاق و سباق سے ہٹ کر‘ کہہ کر دفاع کیا جوکہ ایک شرمناک عمل ہے۔
ہماری ٹی وی اسکرینز پر شاذو نادر اس پر بات ہوتی ہے کہ ’جب عورت نے نہیں کہا تو ریپ کرنے والے شخص نے اس کی بات کیوں نہیں سنی‘ بلکہ اس کے بجائے اس بات پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے کہ صبح 2 بجے عورت موٹر وے پر گاڑی چلا ہی کیوں رہی تھی یا یقیناً متاثرہ عورت نے کیا لباس پہن رکھا تھا۔ اس ملک میں آپ خود کو سر سے پاؤں تک ڈھانپ لیں پھر بھی آپ کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ یہاں تو خواتین قبروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔
تاہم ٹو کل اے ٹائیگر جیسی دستاویزی فلموں کی کہانی امید کی کرن ہے کیونکہ وہ اس 13 سالہ لڑکی کے باپ جیسے دیگر بہادر مردوں پر روشنی ڈالتی ہے جو اپنی بیٹی کے ساتھ کھڑے ہوئے اور اپنی برادری، گاؤں، ملزمان اور اس نظام کے خلاف کھڑے ہوئے جو ان کے لیے انصاف کا حصول مشکل بناتا ہے۔ انہیں وکلا اور ان سماجی کارکنوں کی حمایت بھی حاصل تھی جنہوں نے لڑکی کے خاندان کو انصاف دلوانے کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔
پاکستانی دستاویزی فلموں نے بھی معاشرتی برائیوں کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن انہیں یہاں نشر نہیں کیا گیا بلکہ اس کے بجائے انہیں پاکستان کو بدنام اور شرمندہ کرنے کا مرتکب قرار دیا گیا۔ لڑکوں کے جنسی استحصال کے بارے میں مو نقوی کی دستاویزی فلم ’پاکستانز ہڈن شیم‘ ہم سب کو دیکھنی چاہیے۔ ہم میں سے اکثر اپنے بچوں کو مولوی صاحبان کے ساتھ اکیلا نہیں چھوڑیں گے لیکن سمجھتے ہیں کہ اس معاملے کو ٹی وی پر دستاویزی فلموں کے ذریعے نشر نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ پاکستان کے خلاف بین الاقوامی سازش کا حصہ ہے۔
ریپ جیسے المیے کا شکار بننے والے بچوں اور خواتین پر کس حد تک معاشرتی بوجھ کم کرنا ممکن ہے؟
یکے بعد دیگرے پیش آنے والے دو لرزہ خیز واقعات نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کیا ہم انتہا پر نہیں پہنچ چکے؟ سب سے پہلا واقعہ تو وہ ویڈیو ہے جس میں ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو اپنی 22 سالہ بہن کا گلا گھونٹتے فلمایا ہے جبکہ ان کا باپ ساتھ بیٹھا یہ سب دیکھ رہا ہے۔ اسے غیرت کے نام پر قتل کا نام دیا گیا مگر یہ فیمی سائڈ یا قتلِ نسواں ہے جوکہ صنفی بنیاد پر تشدد کی بدترین قسم ہے۔
دوسرا واقعہ کالعدم مذہبی تنظیم کے مولوی کا ہے۔ سب سے پہلے ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں پولیس افسر نے بچے کے ریپ کے جرم میں اسے ہتھکڑیاں پہنائی ہوئی ہیں۔ اس کے بعد اطلاع آئی کہ اسے رہا کردیا گیا کیونکہ ایک مذہبی اسکالر کی مداخلت کی وجہ سے متاثرہ بچے کے باپ نے اس ملزم کو معاف کردیا۔ میرے خیال میں شاید ریاست یہ مقدمہ لڑنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
جب میں یہ کالم لکھ رہی تھی تاکہ جمہوریت کے نام نہاد سرپرستوں پر تنقید کرسکوں جو ہمیشہ اپنے کمزور شہریوں کو مایوس کرتے ہیں، ڈان نے ایک خبر رپورٹ کی کہ مظفر گڑھ میں اعتکاف میں بیٹھے بچے کا ریپ کیا گیا ہے۔
اس واقعے کے حوالے سے سوشل میڈٰیا پر کافی اشتعال دیکھا گیا۔ اس طرح کے گھناؤنے جرائم کے خاتمے کا مطالبہ کرنے والی آوازیں، ان مشتبہ افراد سے کئی زیادہ ہیں جو اس طرح کے وحشیانہ جرائم کے مرتکب ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ محمد مالک نے اپنے ٹی وی شو میں علامہ ابتسام ظہیر سے سخت سوالات پوچھے اور دیگر بھی اس واقعے کے حوالے سے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں بہترین صحافت ہے۔
یہ پاکستان اب وہ ملک نہیں رہا جس میں ہم اور آپ پلے بڑھے۔ آج کے نوجوان خاموشی سے ناانصافی کی ہولناک کارروائیوں کو برداشت نہیں کریں گے۔ چاہے آپ ایکس اور اس جیسے دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی ہی کیوں نہ لگادیں، سوشل میڈیا ایسے مطالبات کو آواز دیتا ہے جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس مسئلے کو کبھی نہ کبھی تو حل ہونا ہے، سب اسی طرح نہیں چل سکتا۔ اور یہ اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے مردوں کی انا ہے جو ریپ اور دہشت گردوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔
اب تبدیلی لانے کا وقت آچکا ہے، کوئی اگر مگر نہیں یا اس وقت انہوں نے یہ کیوں کیا؟ اس جیسے سوالات کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہمارے بچوں کو ہماری ضرورت ہے اور انہیں زیادتی کا نشانہ بنانے والوں کو راستے سے ہٹانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اب مزید ان سے ڈرنا نہیں چاہیے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔