وائجر ون کا نظامِ شمسی کو الوداع
سال 1977 میں زمین سے روانہ ہونے والے اہم ترین خلائی جہاز وائیجر اول اب بھی خلا کی گہرائیوں کی جانب رواں دواں ہے لیکن اب وہ ہمارے نظامِ شمسی ( سولر سسٹم ) کی حدود سے باہر نکل چکا ہے۔
سائنسدانوں کے پاس اس کے ٹھوس ثبوت ہیں کہ ناسا کا وائیجرون ' ہیلیوسفیئر' نامی علاقے سے باہر نکل چکا ہے۔ اوراب کائیناتی سمندر میں رواں دواں ہے۔ یہ انسان کی بنائی ہوئی پہلی شے ہے جس نے ' ہیلیوسفیئر' کو عبور کیا ہے۔ یہ وہ سرحد ہے جہاں سے نظامِ شمسی کا سورج، سیارے اور سولر ہوائیں بقیہ کہکشاں سے الگ ہوتی ہیں۔
' ہیلیوسفیئر کوالوداع کہہ کر ستاروں کی جانب جانے کے اس سفر کو ہم زمین کے گرد پہلے مکمل چکر یا چاند پر پہلا قدم جیسے کارنامے سے تعبیر کریں گے،' ایڈ سٹون نے کہا جو وائیجر مشن کے چیف سائنٹسٹ ہیں۔
ہفت روزے جریدے سائنس میں کہا گیا تھا کہ وائیجر ون 25 اگست 2012 کو ستاروں کے درمیان اپنا سفر شروع کرچکا ہے لیکن ناسا نے پہلی مرتبہ اس کا باضابطہ اعلان کیا ہے۔
وائیجر ون نے اس پورے عرصے میں 18.8 ارب کلومیٹر کا سفر طے کیا ۔
ہم اپنی سہولت کیلئے کہہ رہے ہیں کہ وائیجر ون نظامِ شمسی سے باہر نکل گیا ہے لیکن اگر قدرے سختی سے ' نظامِ شمسی' کی تعریف کی جائے جس میں دور دراز طویل مدار میں سورج کے گرد گھومتا دمدار ستارہ ( کومٹ ) بھی شامل کرلیا جائے تو ہمیں اگلے تیس ہزار سال کا انتظار کرنا پڑے گا۔
ماہرین کے مطابق اسے اگلی اہم منزل یعنی کسی قریبی ستارے تک پہنچنے میں مزید چالیس ہزار برس لگیں گے، سٹون نے کہا۔
وائیجر اس وقت 38,000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گردش کررہا ہے لیکن اس نے اب تک ہمیں کوئی تصویر نہیں بھیجی بلکہ اس کے آلات بتاتے ہیں کہ یہ نظامِ شمسی کے اندر ہے یا باہر ہے۔
وائیجر پر شمسی ہواؤں ( سولر ونڈز) کی شدت اور الیکٹرانوں کی موجودگی کا احتیاط سے مقابلہ کرنے کے بعد ہی ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ ایک ایسے علاقے میں ہیں جو شاید ہیلیوسفیئر سے باہر ہے۔
حیرت انگیز بات ہے کہ وائیجرون کی میموری صرف 68 کلوبائٹس ہے جو ایک سادہ موبائل فون سے بھی بہت کم ہے۔ اور اس پر بھی ماہرین روز اس سے رابطہ کرتےہیں۔
وائیجر ون پر ہم زمین والوں کی طرفسے ایک ٹائم کیپسول بھی موجود ہے جسے ' گولڈن ریکارڈ ' کا نام دیا گیا ہے۔ یہ بارہ انچ کی سونے کا پانی چڑھی تانبے کی ایک پلیٹ ہے جس پر ہماری زمین سے کچھ قدرتی آوازیں قید ہیں تاکہ کائنات کے کسی گوشے میں کوئی اور ذہین مخلوق ہمارے اس پیغام کو سن سکے لیکن اس کیلئے ٹیکنالوجی یا میوزک پلیئر ہونا ضروری ہے۔