بشام واقعہ میں ملوث عناصر نہیں چاہتے پاک-چین دوستی آگے بڑھے، وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ بشام واقعہ میں ملوث عناصر نہیں چاہتے ہیں کہ پاک-چین دوستی آگے بڑھے۔
کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ 26 مارچ کو بشام میں اندوہناک واقعہ ہوا، جس میں 5 چینی انجینیئرز اور ایک پاکستانی شہید ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ بشام واقعہ کے پیچھے وہ عناصر ہیں جو نہیں چاہتے کہ پاک-چین دوستی آگے بڑھے لیکن یہ مضبوط ہورہی ہے، ہم نے چینی حکام اور عوام کو یقین دہانی کروائی کہ اس اندوہناک واقعے کی تحقیقات کی جائیں گی اور ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا ملے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پوری کوشش کہ جائے گی کے دوبارہ ایسا واقعہ نہ ہو، دہشتگردی کے خاتمے تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
’تمام وزارتوں سے 5 سالہ منصوبہ شیئر کرلیا‘
وزیراعظم نے کہا کہ 4 مارچ کو میں نے دوسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا، اللہ سے دعا ہے کہ ہماری رہنمائی فرمائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم تمام چیلنجز کا بھرپور مقابلہ کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے تمام وزارتوں سے 5 سالہ منصوبہ شیئر کرلیا ہے، میں نے تمام وزارتوں کو کاغذات بھجوا دیے ہیں جس میں اس 5 سالہ منصوبے کے اہداف اور خدوخال درج ہیں، ان مقاصد کے حصول کے لیے ہمیں سر جوڑ کر شبانہ روز محنت کرنی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس وزارتوں میں مایہ ناز سیکریٹریز ہیں، جو اچھے سیکریٹریز ہیں ان کو ستائش اور شاباش ملے گی تاکہ باقیوں کو ترغیب ملے، جو کام نہیں کریں گے ان کو سائیڈ لائن کردیا جائے گا۔
شہباز شریف نے کہا آپ کو اپنے اہداف پورے کرنے کے لیے میکنزم بنانا ہوگا تاکہ فائل ورک کے انبار سے نمٹا جائے اور نئے آئیڈیاز پر کام کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں آئندہ 5 برس میں پاکستان کی معیشت کو بدلنا ہے، اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ابھی سے حکمت عملی بنائیں تاکہ ہم اس جانب تیزی سے دوڑنا شروع کردیں۔
’ذمہ داری کے ساتھ احتساب کے بغیر کوئی کام نہیں چل سکتا‘
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ذمہ داری کے ساتھ ساتھ احتساب کے بغیر دنیا کا کوئی کام نہیں چل سکتا، میں نے میکنزم طے کرلیا ہے، ہر وزارت کے ساتھ ماہانہ یا سہ ماہی نشست ہوگی جس میں کارکردگی، اہداف کے حصول اور تاخیر کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے گا۔
شہباز شریف نے کہا کہ ہمیں بتدریج اپنے قرضوں کو نیچے لے کر آنا ہے اور خودانحصاری کی طرف جانا ہے، آئی ایم ایف پروگرام سے ہمیں استحکام ضرور ملے گا کہ لیکن ہر شعبے میں ترقی اور روزگار کے مواقع ہمیں خود پیدا کرنے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ معیشت کا پہیہ تیزی سے چلے گا تو پاکستان آگے بڑھے گا، استحکام کے لیے ہمیں آئی ایم ایف کے دوسرے پروگرام کی ضرورت ضرور ہے، مگر کس شعبے میں کیسے ترقی کرنی ہے یہ آئی ایم ایف نہیں بتائے گا، ہمیں خود تیزی سے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ڈیجیٹائزیشن کے لیے مکمل پروگرام بن چکا ہے، آئندہ ماہ اس کے کنسلٹنٹس بھرتی کرلیے جائیں گے، اس کے لیے ہم نئے ججز کے خدمات حاصل کریں گے، ہوسکتا ہے نسٹ اور لمز کے ذریعے ان کا ٹیسٹ لیا جائے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں سرکاری اخراجات کم کرنے ہوں گے، آئی ٹی کے شعبے میں برآمدات 25 ملین ڈالرز تک لے جانے کا خواب میرے سر پر سوار ہے، اگر ایسا نہیں بھی ہوا تو ہم اس کے قریب بھی پہنچ جائیں تو بڑی بات ہے۔
انہوں نے بتایا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کے دوران انہوں نے مجھے یقین دہانی کروائی کہ آپ کی اچھی پالیسوں کو سپورٹ کرنے کے لیے ہم بالکل حاضر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے چیف جسٹس سے بات کی کہ ہمارا اپیلیٹ کورٹ اور ہائر کورٹس میں اربوں روپیہ پھنسا ہوا ہے، انہوں نے مجھے کہا کہ آپ بےفکر رہیں، آپ اپنی طرف سے محکموں کو ٹھیک کریں تو ہماری طرف سے کوئی کمی نہیں ہوگی۔
اجلاس کا 5 نکاتی ایجنڈا
قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کا اجلاس آج طلب کر لیا تھا۔
’ڈان نیوز‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس کی صدارت کریں گے، اجلاس میں کابینہ کو دیے گئے اہداف پر جواب طلب کیا جائے گا۔
وزیرِاعظم کی زیرِصدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس کا 5 نکاتی ایجنڈا بھی جاری کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں ججز کے خط کا معاملہ زیر غور آئے گا اور الزامات کی انکوائری کے لیے کمیشن کے قیام کی منظوری دی جائے گی۔
اجلاس میں مالی سال 24-2023 کے وسط مدتی بجٹ رپورٹ کا جائزہ لیا جائے گا، مالی سال 22-2021 کی مشترکہ وفاقی، صوبائی اور ضلعی فنانشل اسٹیٹمنٹ بھی اجلاس میں پیش کی جائے گی۔
اجلاس میں پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پیپرا) کی سالانہ رپورٹس کا جائزہ بھی لیا جائے گا، وزیراعظم مختلف وزارتوں اور ڈویژنز کو اہم اہداف سونپیں گے۔