’کسی کو پتا نہیں، سائفر کا متن کیا ہے، کہہ رہے ہیں دشمن کو فائدہ ہو گیا‘
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کر دی جبکہ دوران سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ کسی کو پتا نہیں کہ سائفر کا متن کیا ہے لیکن کہہ رہے ہیں کہ دشمن کو فائدہ ہو گیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی، بانی پی ٹی آئی کے وکلا سلمان صفدر اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
اس موقع پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ اور ذوالفقار عباسی نقوی بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کے آفس سے کوئی آیا ہے ؟ ہم نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سے ریورٹ منگوائی تھی، ان کی جانب سے رپورٹ ابھی تک پیش نا ہو سکی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ آپ نے جج پر جو اعتراض کیا تھا، وہ درخواست دکھائیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ سائفر کیس کی سماعت کے دوران جب جج پر یہ اعتراض آیا تھا تو عدالت نے آبزرویشن دی تھی کہ ٹرائل جج کے سامنے درخواست دائر کر سکتے ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد ایاز شوکت اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل بھی عدالت میں پیش ہوگئے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سائفر آفس 24 گھنٹے کام کرتا ہے، سائفر آفس کبھی بند نہیں ہوتا ہے، اصل سائفر وصول کرنے والے افسر کے پاس رہتا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ گواہ نے کہا ہے کہ میں نے سائفر ڈاؤن لوڈ کیا، عدالت نے استفسار کیا کہ جس ای میل میں آیا کیا وہاں سائفر اب بھی موجود ہے؟
جس پر ایف آئی اے پراسکیوٹر نے بتایا کہ تمام اوریجنل سائفر کو ڈی کوڈ کرنے بعد ختم کردیا جاتا ہے، عدالت نے پوچھا کہ کیا ڈی کوڈڈ سائفر بھی واپس آنے کے بعد ختم کردیے جاتے ہیں؟
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ڈی کوڈڈ کاپی بھی بعد ازاں ختم کردی جاتی ہے، عدالت نے مزید استفسار کیا کہ کیا سافٹ کاپی رہتی ہے ؟ جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ وہ کاپی تو رہے گی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ رہے گی نہیں آپ کو بہت احتیاط سے بتانا ہے، کوڈڈ فارم میں ای میل آئی ہو گی اس کو یہاں ڈاؤن لوڈ کرکے اس کو ڈی کوڈ کیا ہو گا۔
وکیل حامد علی شاہ نے دلائل دیے کہ جو بھیجیں گے وہ ضائع کریں گے وہاں کوئی پڑا نہیں ہو گا، جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ یہ گائیڈ لائنز کہاں لکھی ہوئی ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ضمانت پر سماعت کے دوران کوئی بُک دی گئی تھی،۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ جو سائفر کوڈڈ فارم میں ہے وہ رہے گا ؟ جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے بتایا کہ جی وہ تو رہے گا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ سائفر ای میل کے ذریعے کوڈڈ لینگویج میں آتا ہے؟ کیا سائفر دفترِ خارجہ میں موجود ہونے کا مطلب کہ ای میل موجود ہو گی؟
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا اصل سائفر دفترِ خارجہ میں موجود ہے؟
پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے عدالت کو بتایا کہ سائفر کی اصل کاپی کو دفتر خارجہ میں موجود ہونا چاہیے، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ ہو گا نہیں، آپ کو بڑا ٹو دی پوائنٹ جواب دینا ہو گا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ یہ کرمنل کیس ہے، ڈاکومنٹ بھی ریکارڈ پر نہیں ہے ، مزید کہا کہ ڈاکومنٹ جس کے غلط استعمال یا ٹوئسٹ کرنے کا الزام ہے اس کا متن ریکارڈ پر ہی نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ سول کیس نہیں ہے بلکہ کرمنل کیس ہے اور مفروضوں پر نہیں جا سکتے، بغیر کسی شک و شبہ کے پراسیکیوشن نے یہ ثابت کرنا ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ جب سپریم کورٹ کے سامنے یہ کیس سنا گیا تو بنچ نے بار بار کہا اس کو سائفر نا کہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مؤقف اپنایا کہ کیا کوڈ تک بانی پی ٹی آئی عمران خان کی کسی اسٹیج پر رسائی تھی؟ جس پر وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ بالکل کوئی رسائی نہیں تھی نا ہی ایف آئی اے کا یہ کیس ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ سائفر سیکیورٹی کا سیکریٹ کوڈ تک تو رسائی ہی نہیں تو کیسے سسٹم کمپرومائز ہو گیا، کل میں عدالت کے سامنے درخواستیں ہائی لائٹ کروں گا وہ کیا ہیں۔
وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ ہم نے ٹرائل کورٹ کو سائفر گائیڈ لائن کی درخواست دی تھی، جو مسترد کردی گئی، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ سارا کیس ایک ڈاکومنٹ کے اردگرد گھوم رہا ہے، وہ ڈاکومنٹ ریکارڈ پر نہیں ہے یا کم از کم متن بھی ریکارڈ پر نہیں ہے۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ آئیڈیلی پراسیکوشن کا کیس یہ تھا کہ دفتر خارجہ سے کوئی سائفر چوری کرکے دشمن ملک کو دے دے، عدالت نے سوال پوچھا کہ کیا گواہ کہہ رہا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل کی ہدایت پر سائفر کی کاپی تفتیشی افسر کو دی گئی؟
وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ تفتیشی افسر نے کسی اسٹیج پر یہ نہیں کہا کہ اسے سائفر کی کاپی دی گئی، جس پر ایف آئی اے پراسیکوٹر کا کہنا تھا کہ وہ رجسٹر کی کاپی کی بات ہو رہی ہے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے مؤقف اپنایا کہ اس میں کچھ لنکس مسنگ ہیں، سائفر سیکشن کے افسر شمعون کا بیان عدالت کے سامنے پڑھ رہا ہوں۔
وکیل حامد علی شاہ کا کہنا تھا کہ سیکریٹ سیکشن پولیٹیکل (ایس ایس پی ) وزارت خارجہ میں ایک سیکشن ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ دفتر خارجہ کے گواہ شمعون نے کہا کہ اوریجنل سائفر دفتر خارجہ میں پڑا ہے ، اس ایف آئی آر میں سائفر لفظ غلط استعمال ہوا ہے، سائفر دفتر خارجہ میں ہی رک جاتا ہے آگے کاپی پلین ٹیکسٹ جاتی ہے۔
سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ اصل سائفر دفتر خارجہ میں موجود ہے، وہ دفتر خارجہ سے باہر گیا ہی نہیں، سائفر دفتر خارجہ میں ہے، اس کی کاپی آگے بھیجی جاتی ہے۔
وکیل بانی پی ٹی آئی نے مؤقف اپنایا کہ سائفر کا لفظ مقدمہ میں غلط طور پر استعمال کیا گیا۔
ایڈوکیٹ سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ ایک گواہ تیسری دفعہ پیش ہوا ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ سپر کاپی کوئی آفیشل ٹرمینالجی تو نہیں ہے ؟ جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے بتایا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ جو نمبر لگا ہے وہ سائفر نہیں پلین ٹیکسٹ ہے یہ ظاہر ہو رہا ہے، ایک صفحہ پہلے وہ کہہ رہے ہیں امریکا سے نمبر لگا اگلے صفحے پر کہہ رہے ہیں سائفر کو نمبر یہاں لگا ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ درست پوزیشن یہ ہے کہ گواہ یہ کہہ رہے ہیں یہ سائفر کی کاپی پر پاکستان میں نمبر لگا ہے، جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بھی کچھ جگہوں پر میں نے پڑھا ہے وہاں بھی کاپی لکھا ہوا ہے ،
عدالت نے استفسار کیا کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ سائفر کی کاپیز کو ضائع کیا جائے گا ؟
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ آپ بھی سائفر دیکھ سکتے ہیں، جس پر عدالت نے کہا کہ ہم اپیل سن رہے ہیں ہمیں ٹرائل کورٹ کے فیصلے کی قانونی پوزیشن دیکھنی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ نا جج کو نا پراسیکوشن کو وہ ڈاکومنٹ دکھایا گیا۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے مکالمہ کیا کہ بدھ کے روز آرڈر ہوا تھا آپ نے ابھی تک سی ویز کی کاپیز نہیں دی۔
چیف جسٹس نے جیل حکام پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ سول کورٹ ہے مجسٹریٹ کورٹ ہے کہ ہاتھ سے فائل کریں گے،
عدالت نے استفسار کیا کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ سائفر کی کاپیز کو ضائع کیا جائے گا؟
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ سائفر کا متن ٹرائل جج، پراسیکیوشن اور فیصلے کو بھی معلوم نہیں، کسی کو پتا نہیں کہ سائفر کا متن کیا ہے لیکن کہہ رہے ہیں کہ دشمن کو فائدہ ہو گیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ سائفر کا متن جج، پراسیکیوشن یا ملزمان کے وکلا کے سامنے ہی نہیں،
عدالت نے کہا کہ سائفر کام کیسے کرتا ہے دفتر خارجہ کو کیا بلا کر پوچھ لیں؟ اس حوالے سے کل عدالتی معاونت کریں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے اسٹیٹ کونسلز کی سی ویز طلب کی تھیں، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سے ریکارڈ طلب کیا تھا وہ بھی پیش نہیں کیا گیاْ
ایڈووکیٹ جنرل ایاز شوکت نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں کورٹ کا آرڈر ہی نہیں مل سکا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی موجودگی میں آرڈر لکھوایا تھا، آپ ہمارے آرڈر کو بہت غیرسنجیدہ لے رہے ہیں؟
عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ 20 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کی خلاف اپیلوں پر سماعت 25 مارچ تک ملتوی کر دی گئی تھی، سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال اٹھایا تھا کہ سرکاری وکلا کی تعیناتی کس قانون کے تحت ہوتی ہے؟
اس سے ایک روز قبل (19 مارچ) اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا تھا۔
یاد رہے کہ رواں سال 30 جنوری کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔
سائفر کیس
سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔
مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔
سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔
مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔
ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔