!جانتے نہیں میں کون ہوں
ہمیں دنیا کے چند انتہائی بدعنوان، بد دیانت، ان پڑھ اور عجیب بیوروکریٹس کی میزبانی کا شرف حاصل ہے- سونے پہ سہاگہ ان کی دیدہ دلیری بھی حیرت انگیز ہے-
ان کے کردار کی خامیاں اور کمزوریاں کبھی بھی اقتدار کے حصول میں ان کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنتیں- کیوں کہ اگر آپ کے پاس صحیح نام، صحیح رابطے اور صحیح بینک بیلنس ہو تو اس ملک میں کچھ بھی ناممکن نہیں-
اس طاقت میں حصّہ دار ان کے خاندان والے، قریبی ساتھی اور ملازمین بھی ہوتے ہیں- جیسا کہ یہ سب ہی اس اختیار میں حصّہ دار ہیں، تو یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا غلط استعمال ان سب کا حق ہے، اور وہ اس کا غلط استعمال کرتے ہیں-
اسی طرح، قبائلی علاقوں کے پولیٹیکل ایجنٹ، جو کہ عوام کے خادم ہوتے ہیں سیاستدان نہیں، طاقتور اور بد عنوانوں کی صف میں شامل ہیں-
چند دنوں پہلے، لنڈی کوتل کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ، طیّب عبداللہ، نے انہیں بروقت پروٹوکول نہ دینے پر خاصہ دار اہلکاروں (ایک مخصوص قبائلی ایجنسی سے تعلق رکھنے والی قبائلی پولیس) کے ایک گروپ کو سزا دی-
اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ نے پشاور، کارخانو چیک پوسٹ سے خاصہ دار جانے کے لئے، خاصہ دار فورس کی پروٹوکول پارٹی کو طلب کیا لیکن مرمت کے کچھ کام اور تھوڑے ٹریفک جام کی وجہ سے وہ وقت پر نہ پہنچ سکے-
اس تاخیر پر اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ اتنا ناراض ہو گۓ کہ انہوں نے متعلقہ خاصہ دار اہلکار کو آرمی کیمپ کے اندر ایف سی گراؤنڈ میں کئی چکّر لگانے کا حکم دیا، اور دوسروں کے ہاتھوں میں چھڑی دے دی تاکہ نافرمانی کرنے والوں کو سزا دیں-
جب ایک خاصہ دار سپاہی علالت کی بنا پر یہ سزا پوری نہ کر سکا تو ایجنٹ موصوف نے اسے گاڑی سےباندھ کر ڈرائیور کو پورے گراؤنڈ میں گھسیٹنے کا نادر شاہی حکم صادر کر ڈالا!
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کی سزائیں عوامی مظاہرے کے لئے دی جاتی ہیں اور ایجنٹ موصوف کی اس انا کی تسکین کے لئے بھی جو بروقت مطلوبہ پروٹوکول نہ ملنے کی وجہ سے مجروح ہوئی تھی-
ایسا لگتا ہے کہ پولیس اور خاصہ دار فورس عوام کی خدمت کی بجاۓ ان سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور ان کے خاندانوں کی غلامی کے لئے مامور ہیں تاکہ ان کے جلوس چوڑے نظر آئیں-
خاصہ دار اہلکاروں کے مطابق، یہ بھی بتایا گیا کہ جس علاقے میں فورسز کو بلایا گیا وہ ان کے علاقائی دائرہ اختیار میں آتا بھی نہیں ہے چناچہ وہاں جانے کے وہ پابند نہیں تھے-
لیکن ان تفصیلات کی پرواہ ہی کون کرتا ہے جبکہ ادھر ایک طاقتور ناراض شخص، قصبے میں شان و شوکت کے ساتھ داخل ہونے کے لئے ان کا انتظار کر رہا ہے-
یہ واقعہ اس طاقت کے غلط استعمال کی صرف ایک مثال ہے جسے پولیس فورسز، سیاستدانوں اور سیاسی ایجنٹوں کے ہاتھوں برداشت کرتی ہیں-
اس مہینے کے شروع میں، ایڈووکیٹ گجر نے، جو تب این اے-48 میں حکمران پی ایم ایل-این کے امیدوار تھے، مرگلہ پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او کو سنگین نتائج کی دھمکی دی کہ اگر اس نے اسلام آباد کے جی-8 ایریا میں کچی آبادی کے رہائشیوں کو گیس اور بجلی کی چوری کے الزام میں گرفتار کیا تو اس کی خیر نہیں-
نیوز رپورٹ کے مطابق، گجر نے مرگلہ ایس ایچ او رخسار مہدی کو یہ کہتے ہوے دھمکی دی، "تم جانتے نہیں میں کتنا پاورفل ہوں، میں تمہارا ٹرانسفر کروا دوں گا"!
اور ظاہر ہے جب تک اس طرح کے واقعات سچائی کی روشنی میں آتے ہیں تب تک متعلقہ پارٹیاں اور لوگ ان کی حقیقت سے انکار کر دیتے ہیں- آخر کو یہ حکمران اشرافیہ کے خلاف فقط ایک غریب شخص کی پکار ہی تو ہوتی ہے-
ایک اور ایسا ہی کیس، لاہور میں سابقہ وزیر کے گھر میں زنجیروں سے قید تین بچوں کا ہے، جنہیں وزیر صاحب کے گھر سے برامد کیا گیا- لوگ اب تک حیران ہیں کہ آج کے دور میں کوئی ایسا کس طرح کر سکتا ہے، جبکہ ملزم سابقہ وزیر لیاقت عبّاس بھٹی، نے اس معاملے میں اپنا دامن بچاتے ہوۓ سارا الزام اپنے ڈرائیور پر تھوپ دیا ہے (خیال رہے کہ وہ بھی ایک غریب آدمی ہے)-
اپنے گھر سے برآمد ہونے والی اس ہولناک دریافت پر بھٹی صاحب کے موقف سے قطع نظر، یہ خیال ہی کتنا بھیانک ہے کہ کتنی آسانی سےطاقت کے بل پر کوئی کسی غربت کے مارے انسان کی اولاد کو قید کر کے زنجیروں میں جکڑ کر رکھ سکتا ہے، اور ایسے لوگوں کو نتائج کی پروا بھی نہیں ہوتی-
اس طرح کے لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ان کی طاقت اور انکا پیسہ قانون سے بالاتر ہے، میں سمجھتی ہوں انہیں اپنے اعمال سے پیدا ہونے والے نتائج کا کوئی خوف ہوتا ہی نہیں ہے- بس آپ کو ایک غریب آدمی کو رشوت یا دھمکی دینے کی ضرورت ہوتی ہے، چاہے وہ پولیس والا ہو یا آپ کا ادنیٰ نوکر، آپ کا راستہ صاف ہو جاتا ہے-
پولیٹیکل ایجنٹوں، جاگیرداروں، سیاست دانوں کے ہاتھوں طاقت کے ناجائز استعمال کو روکنے کے لئے پولیس کو مزید اختیارات دینا، اس مسئلہ کا ایک حل ہو سکتا ہے- لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جب تک یہ لوگ خود کو ناقابل تسخیر اور قانون سے بالاتر سمجھتے رہیں گے ایسی کوئی تبدیلی آنا مشکل ہے-
جیسا کے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ تعلیم اور احتساب ایک قوم کی نفسیات بدلنے کے لئے انتہائی ضروری ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم اور آگے نہیں جا سکتے کیونکہ ہم تعلیم کے بجاۓ پروٹوکول پر پیسہ خرچ کرنا زیادہ ضروری سمجھتے ہیں-
شائمہ سجاد ڈان ڈاٹ کوم کی ڈپٹی ایڈیٹر ہیں ترجمہ: ناہید اسرار