دوا ساز کمپنیوں کو ادویات پر ’بارکوڈ‘ لگانے کیلئے ایک ماہ کا وقت دے دیا گیا
وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز نے دوا ساز کمپنیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر تمام مقامی اور درآمدی ادویات کی پیکیجنگ پر بارکوڈ پرنٹ کریں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کمپنیاں 20 اپریل تک تمام فارماسیوٹیکل اور بائیولوجیکل ادویات کے لیے جاری کردہ ہدایات پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہیں۔
یہ فیصلہ بدھ کو اسلام آباد میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) پالیسی بورڈ کے 51ویں اجلاس کے دوران کیا گیا۔
وفاقی سیکرٹری صحت کی زیر صدارت اجلاس میں بورڈ ممبران، ڈریپ کے سی ای او ڈاکٹر عاصم رؤف اور اتھارٹی کے ڈویژنل ڈائریکٹرز نے شرکت کی۔
وزارت صحت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام معیاری ادویات کی فراہمی اور جعلی ادویات کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔
بورڈ نے ڈریپ کو قانونی کارروائیوں سمیت تمام اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ بارکوڈز گلوبل شناختی کوڈ سسٹم کے طور پر کام کرےگا، جس سے شہری اپنے اسمارٹ فونز سے بارکوڈ اسکین کرکے ادویات اور ان کی قیمتوں کی تصدیق کر سکیں گے۔
یہ نظام تقریباً ایک دہائی سے کام کر رہا ہے، نیشنل ہیلتھ سسٹم کی وزارت اور ڈریپ نے 2015 میں بارکوڈ متعارف کرانے کے لیے کام کرنا شروع کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ یہ جعلی ادویات کی فروخت کو ختم کر دے گا۔
دو سال بعد مارچ 2017 میں وزارت نے اعلان کیا کہ اس منصوبے کو منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا ہے۔
وزارت صحت کے ایک عہدیدار نے کہا کہ یہ بار کوڈ ڈپارٹمنٹل اسٹورز جیسا ہی ہوگا جہاں مصنوعات کی قیمتوں کو سنگل ڈائمینشنل یا ون آئی ڈی بارکوڈز کے ذریعے چیک کیا جاتا ہے۔
دوا ساز کمپنیاں ٹو ڈی بارکوڈز، جنہیں عام طور پر کیو آڑ کوڈز کے نام سے جانا جاتا ہے، دوائیوں کی پیکیجنگ پر استعمال کریں گے۔
صارفین پروڈکٹ کے نام، اس کے بنانے والے نام، بیچ نمبر، وہ تاریخ جس کے بعد چیز استعمال کے قابل نہیں رہتی اور قیمت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے ٹوڈی بارکوڈز کو اسکین کر سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جن شہریوں کے پاس اسمارٹ فون نہیں ہیں وہ میڈیکل اسٹور کے مالک یا کسی دوسرے شخص سے درخواست کر سکتے ہیں کہ وہ دوا کی تصدیق میں ان کی مدد کریں۔