نواز شریف کی زیرِصدارت حکومت پنجاب کے اجلاس کا انعقاد لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج
حکومت پنجاب کے انتظامی اجلاس کو مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت منعقد کرنے کے اقدام کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق درخواست ندیم سرور ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی ہے، درخواست میں نواز شریف اور وزیر اعلٰی پنجاب مریم نواز کو بذریعہ پرنسپل سیکریٹری کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا گیا ہے کہ نواز شریف نہ تو وزیر اعلٰی ہیں، نہ ہی ان کے پاس پنجاب کی کوئی وزارت ہے، نواز شریف کے پاس کوئی انتظامی عہدہ بھی نہیں ہے لہذا نواز شریف انتظامی سطح پر کسی اجلاس کی صدارت نہیں کر سکتے ہیں۔
درخواستگزار نے استدعا کی کہ عدالت نواز شریف کو انتظامی سطح پر اجلاس کی صدارت کرنے سے روکے۔
یاد رہے کہ 8 فروری کو عام انتخابات کے انعقاد کے بعد سے عوام کی نظروں سے اوجھل رہنے کے بعد سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف حکومتِ پنجاب کے 3 انتظامی اجلاسوں کی صدارت کرکے توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔
اس اقدام پر کئی حلقوں کی جانب سے سوالات کھڑے ہوگئے کیونکہ نواز شریف کے پاس صوبائی یا وفاقی حکومت میں کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے اور وہ سرکاری طور پر صرف قومی اسمبلی کے ایک رکن ہی ہیں۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک سرکاری ہینڈ آؤٹ میں کہا گیا کہ نواز شریف نے وزرا اور عہدیداروں کو انفرااسٹرکچر کے مختلف منصوبوں بشمول زیر زمین ٹرین اور میٹرو بس، کسانوں کی فلاح و بہبود، طلبہ کے لیے الیکٹرک بائیکس اور رمضان ریلیف پیکج کے حوالے سے ہدایات جاری کیں۔
وزیراعلیٰ آفس میں ان اجلاسوں کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اپنے والد کے ہمراہ بیٹھی رہیں۔
وزیر منصوبہ بندی و ترقی مریم اورنگزیب، وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری، وزیر خوراک بلال یاسین، چیف سیکریٹری، سیکریٹری خزانہ اور سیکریٹری زراعت نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔
دوسرے اجلاس میں نواز شریف نے رمضان ریلیف پروگرام کو کامیابی سے شروع کرنے پر اپنی بیٹی مریم نواز کی حکومت کی تعریف کی۔
تیسرے اجلاس میں نواز شریف نے طلبہ کو کم ماہانہ اقساط پر فراہم کی جانے والی الیکٹرک بائیکس کی تعداد میں اضافے کی ہدایت دی، انہوں نے متعلقہ عہدیدار کو بس کے کرایوں میں کمی کرنے کی بھی ہدایت دی۔