پاکستان اور افغانستان کے تعلقات محاذ آرائی کی طرف نہیں جانے چاہئیں، احسن اقبال
مسلم لیگ(ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کسی کشیدگی یا محاذ آرائی کی طرف نہ جائیں کیونکہ ہمارے دشمن چاہیں گے کہ پاکستان اور افغانستان کو تناؤ میں الجھا دیا جائے۔
ڈان نیوز کے پروگرام ’لائیو ود عادل شاہ زیب‘ میں گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ ملک میں دہشت گردوں کی واپسی کے حوالے سے اداروں نے جو بھی فیصلے کیے اس کی ذمے داری اس وقت کی حکومت کے اوپر ہے کیونکہ ادارے جو فیصلے کرتے ہیں وہ حکومت کے پابند ہوتے ہیں کیونکہ ادارے تو ہیں لیکن ذمے داری وزیر اعظم کی ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے دشمن یہ چاہیں گے کہ پاکستان اور افغانستان کو تناؤ میں الجھا دیا جائے تو ہمیں جہاں اپنے مفادات کا دفاع کرنا ہے وہیں اس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کسی کشیدگی یا محاذ آرائی کی طرف نہ جائیں اور اس میں ہمارے مشترکہ دوست ممالک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
آئی ایم ایف سے مذاکرات کے حوالے سے سوال پر احسن اقبال نے کہا کہ ابھی تک معاملات بھرپور طریقے سے چل رہے ہیں حالانکہ ہمارے ملک سے ایک جماعت نے بھرپور کوشش کی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات کو سبوتاژ کیا جائے، آئی ایم ایف کے دفتر کے باہر جو مظاہرہ کیا گیا میں اسے معاشی دہشت گردی ہی قرار دوں گا۔
انہوں نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ ہم ملک کو منت ترلوں سے نہیں چلا سکتے، ملک کو مستقل بنیادوں پر قرضوں اور امداد سے نہیں چلا سکتے، اگر ہمیں اس صورتحال سے مستقل بنیادوں پر نکلنا ہے تو ملک کی معیشت کی پیداواری صلاحیت پر بھرپور توجہ دینی ہو گی، ہمیں اپنے ملک میں زرمبادلہ کمانے کی صلاحیت پیدا کرنی ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے وزیراعظم کو پاکستان میں ایکسپورٹ ایمرجنسی لگانے کی تجویز پیش کی ہے، پاکستان چیمبرز کے تمام چیئرمین کو کہا ہے کہ وہ اپے بریف کیس اٹھا کر عالمی منڈیوں میں نکل جائی، ہمیں چاہیے کہ ہم ملک کی پیداواری صلاحیت کو دنیا کے مطابق مسابقتی بناتے ہوئے اس مقام تک لائیں کہ ہم اس مانگ تانگ کے فارمولے سے نکل جائیں۔
مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے حوالے سے صوبے بہت حساس ہیں اور کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ اس کو رول بیک کریں، اب جو چیز آئین میں لکھی گئی ہے تو کوئی یہ کہے گا کہ ہم صوبوں کا حصہ گھٹانے پر تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبوں کا حصۃ نکانے کے بعد وفاقی حکومت کے کُل محاصل 7ہزار ارب رہ جاتے ہیں، بجٹ میں قرضوں کی ادائیگی 7ہزار 300ارب ہے تو یہ 300ارب کا خسارہ ہے جو ایک ہزار ارب تک جائے گا تو ہمیں اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید ایک ہزار ارب روپے کا قرض لینا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے اخراجات کو کم کر کے آمدن کے مطابق خرچ کرنا ہو گا، ہمارے موجودہ اخراجات میں سب سے بڑا خرچہ قرضوں کی ادائیگی ہے اور یہ اس لیے اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ ہمارا پالیسی ریٹ 22فیصد تک پہنچ گیا ہے، اس کا براہ راست تعلق مہنگائی سے ہے، اگر ایک فیصد پالیسی ریٹ نیچے لائیں تو 300 ارب روپے قرضوں کی ادائیگی میں کمی آ سکتی ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ ہمیں اپنے ریونیو کو دو سے تین گنا بڑھانا ہے، ٹیکس وصولی میں جو پیسے چوری ہو رہے ہیں اس کو روکنا ہو گا، بجلی اور گیس چوری کو روکنا ہو گا، اب ہمیں ایک اکنامک لانگ مارچ کی ضرورت ہے۔