• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm

کیا پرنسپل سیکریٹری کو ملنے والی چیز وزیر اعظم کو موصول ہونا تصور ہوگی؟ عدالت

شائع March 18, 2024
— فائل فوٹو: ایکس/ پی ٹی آئی
— فائل فوٹو: ایکس/ پی ٹی آئی

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیا پرنسپل کو ملنے والی چیز وزیراعظم کو موصول ہونا تصور ہو گی؟

ڈان نیوز کے مطابق چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مقدمے کی سماعت کی، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی جانب سے وکلا سلمان صفدر، سکندر ذوالقرنین و دیگر جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی پراسیکیوشن ٹیم میں اسپیشل پراسیکیوٹرز حامد علی شاہ اور ذوالفقار نقوی عدالت میں پیش ہوئے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اپیلوں کی قابل سماعت ہونے پر نہیں بلکہ میرٹ پر اپیلیں سنیں گے، انہوں نے دریافت کیا کہ کیا کیسسز کے پیپر بکس کی کاپیاں دونوں فریقین کو ملی ہیں؟

بعد ازاں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سلمان صفدر نے دلائل شروع کرتے ہوئے بتایا کہ سیکریٹری داخلہ نسیم کھوکھر کی مدعیت میں سائفر کیس کا مقدمہ درج ہوا ہے۔

اس کے بعد وکیل درخواست گزار نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے خلاف ایف آئی آر کا متن پڑھ کے سنایا، انہوں نے کہا کہ الزام لگایا گیا ہے کہ سائفر پبلک کرنے سے پاکستان کے تعلقات خراب ہوگئے، کہا گیا کہ سائفر پبلک کرنے سے سیکیورٹی سسٹم کا مسئلہ ہوگیا، یہ بھی کہا گیا کہ سائفر غائب ہوگیا اور کبھی واپس ہی نہیں آیا۔

اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ یعنی کہ تین نقاط کے اوپر ہی مقدمہ درج کردیا گیا ہے؟

وکیل نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی پر سائفر کو ٹوئسٹ کر کے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا، عمران خان پر سائفر کی کاپی اپنے پاس رکھنے اور گُم کرنے کا الزام بھی لگایا گیا، بانی پی ٹی آئی پر سائفر کے سیکیورٹی سسٹم متاثر ہونے کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر میں پرنسپل سیکریٹری اعظم خان پر ایک مخصوص الزامات لگایا گیا، اعظم خان پر سائفر کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور ٹوئسٹ کرنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔

اس موقع پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ میں نہیں سمجھ پایا، اعظم خان پر کیا کرنے کا الزام لگایا گیا؟ کیا اعظم خان نے بانی پی ٹی آئی کے کہنے پر میٹنگ کے منٹس تیار کیے؟

چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ کیا کوئی دستاویز پیش کیا گیا کہ اعظم خان نے بانی پی ٹی آئی کی ہدایات پر عمل کیا؟ وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ نہیں، ایسا کوئی دستاویز نہیں جس میں یہ لکھا ہو۔

اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اسی لیے لکھا گیا ہے کہ اعظم خان کا کردار بعد میں دیکھا جائے گا۔

وکیل سلمان صفدر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اعظم خان اغوا اور مقدمہ درج ہونے کے اگلے روز منظرِ عام پر آ گئے، اعظم خان نے اپنا بیان قلمبند کرانے کے لیے درخواست جمع کرائی، اُسی دن اعظم خان کا تفتیشی افسر اور مجسٹریٹ کے سامنے بیانات قلمبند بھی ہو گئے۔

وکیل نے بتایا کہ پہلی بار 23 اکتوبر کو چارج فریم ہوا، دوسری دفعہ 13 دسمبر کو چارج فریم ہوا، تیسری دفعہ چارج برقرار رہا مگر کچھ گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے کی کارروائی کالعدم ہوئی، 12 جنوری سے 30 جنوری تک ٹرائل کورٹ نے ٹرائل مکمل کر لیا، ان 18 دنوں میں جج صاحب کو ہمارا کنڈکٹ ٹھیک نہیں لگا ، سائفر ٹرائل میں 12 جنوری کو تیسرا راؤنڈ شروع ہوا اور 30 جنوری کو عدالت نے فیصلہ سنا دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ راؤنڈ 2 میں دوبارہ فرد جرم عائد ہوئی، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی پر دو بار فردِ جرم عائد کی گئی، پہلی فردِ جرم پر چلایا جانے والا ٹرائل ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دیا، ٹرائل کالعدم ہو جانے پر عدالت نے دوبارہ نئے سرے سے فردِ جرم عائد کی۔

بعد ازاں وکیل نے شاہ محمود قریشی کی تقریر کا متن پڑھ کر سنایا، انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی پر صرف معاونت نہیں بلکہ سازش اور اشتعال انگیزی کا الزام بھی لگایا گیا ہے، شاہ محمود قریشی کو صرف چار لائنوں پر 10 سال قید کی سزا کا فیصلہ سنایا گیا۔

بعد ازاں وکیل سلمان صفدر نے شاہ محمود قریشی کی 27 مارچ کے جلسے کی تقریر عدالت کے سامنے پڑھی۔

اس موقع پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ مجھے تو اس کا سر پیر ہی سمجھ نہیں آیا، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اِسی بیان کی بنیاد پر شاہ محمود قریشی کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

پھر وکیل سلمان صفدر نے بانی پی ٹی آئی کی تقریر عدالت میں پڑھ کر سنائی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ یہ تو سیاسی تقریر تھی۔

’یہ دلچسپ ہے کہ تقریریں پہلے ہو گئیں اور سازش بعد میں تیار ہوئی‘

اس کے بعد بیرسٹر سلمان صفدر نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی پر عائد چارج شیٹ پڑھ کر سنائی، انہوں نے بتایا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت میں چارج فریم کیا گیا تھا، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی پر میٹنگ میں سازش تیار کرنے کا الزام لگایا گیا، جس جلسے میں تقاریر کی گئیں وہ 27 مارچ کو ہوا، جس میٹنگ میں سازش تیاری کا الزام ہے وہ 28 مارچ کو ہوئی، یہ دلچسپ ہے کہ تقریریں پہلے ہو گئیں اور سازش بعد میں تیار ہوئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی پر سائفر کو غیر قانونی طور پر پاس رکھنے کا الزام لگایا گیا، عدالت نے سزا سناتے ہوئے کہا کہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا اور اسے غفلت بھی قرار دیا۔

اس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ یہ دونوں الزامات ایک ساتھ کیسے ہو سکتے ہیں؟ یا تو جان بوجھ کر کیا ہو گا یا غفلت کی ہوگی، کیا جب کوئی دستاویز آتا ہے تو وہ پہلے سیکریٹری کے پاس آتا ہے؟ آپ نے عدالت کو بتانا ہے کہ پرائم منسٹر آفس کیسے کام کرتا ہے؟ کیا وزیر اعظم کے پرنسپل کو موصول ہونے والے چیز وزیراعظم کو موصول ہونا تصور ہو گی؟ کیا میرے سیکریٹری کے پاس کوئی چیز آتی ہے تو وہ میرے پاس آنا تصور ہو گی؟ بدقسمتی سے 1947 میں گورا جو قانون بنا گیا اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ آپ اس میں تبدیلی نہیں کر سکتے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ جس قانون کو ہم چھیڑتے ہیں وہ خراب کر دیتے ہیں، ہم گورے کا قانون کہہ کر تنقید تو کرتے ہیں مگر کبھی اسے بہتر کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے، گورے نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ اسے کبھی تبدیل نہیں کرنا، پارلیمنٹ موجود ہے، قانون سازی کر سکتی ہے، جس قانون میں ترمیم کرتے ہیں اسے بگاڑ دیتے ہیں۔

وکیل نے بتایا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت یہاں آرمڈ فورسز، ممنوعہ جگہ وغیرہ نہیں ہے، کوڈ، ڈاکومنٹ یا اس کا متن کہیں کمیونیکیٹ نہیں ہوا، آرمڈ فورسز، ممنوعہ جگہوں اور غیرملکی طاقتوں کا اس پورے کیس میں لنک ہی مسنگ ہے۔

’کیا سائفر ٹرائل کورٹ کے جج کو دکھایا گیا؟‘

پھر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ کیا قانون کے مطابق غیرملکی طاقت کا بتانا ضروری ہے؟ اُس سائفر میں کمیونیکیشن کیا ہے؟ واشنگٹن سے ایک شخص نے ایک چیز بھیجی وہ کیا ہے؟ اس شخص نے بتایا تو ہو گا نا کہ کیا چیز بھارت کے ہاتھ لگ گئی تو سیکیورٹی سسٹم متاثر ہو گا؟ کیا سائفر ٹرائل کورٹ کے جج کو دکھایا گیا؟

وکیل نے جواب دیا کہ نہیں دکھایا گیا، چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ پراسیکیوٹر صاحب پھر ہمیں کیسے پتا چلے گا؟

وکیل سلمان صفدر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایک طرف کہتے ہیں بانی پی ٹی آئی نے سب کچھ پبلک کر دیا، دوسری طرف کہتے ہیں کہ سائفر دکھایا تو پبلک ہو جائے گا.

جسٹس حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ کی بتائی گئی باتوں میں خفیہ رکھے جانے والی تو کوئی بات نہیں، اب ہمیں یہ تو بتا دیں کہ اُس سائفر میں ایسا لکھا کیا ہے؟ وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ میں نے سائفر دیکھا نہیں اس لیے بتا نہیں سکتا کہ کیا لکھا ہے۔

اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پھر ہم پراسیکیوشن سے اس متعلق معلوم کر لیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ 13 مارچ کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں ضمانت اور سزا معطلی کی اپیلوں پر میرٹ پر دلائل سننے کا فیصلہ کرلیا تھا۔

گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف دائر اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر پی ٹی آئی کے وکلا سے دلائل طلب کرلیے تھے۔

اس سے قبل سماعت میں عدالت نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل نے سزا کے خلاف اپیلوں پر دلائل کا آغاز کردیا جبکہ عدالت نے فریقین کو 11 مارچ مکمل تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت کردی تھی۔

واضح رہے کہ رواں سال 30 جنوری کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔

سائفر کیس

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

کارٹون

کارٹون : 18 نومبر 2024
کارٹون : 17 نومبر 2024