• KHI: Zuhr 12:33pm Asr 4:15pm
  • LHR: Zuhr 12:03pm Asr 3:29pm
  • ISB: Zuhr 12:08pm Asr 3:28pm
  • KHI: Zuhr 12:33pm Asr 4:15pm
  • LHR: Zuhr 12:03pm Asr 3:29pm
  • ISB: Zuhr 12:08pm Asr 3:28pm

بڑے پیمانے پر پروڈکشن کے عمل میں نوٹوں میں نقائص کا خدشہ رہتا ہے، اسٹیٹ بینک

شائع March 13, 2024
بیان میں کہا گیا کہ این بی پی ماڈل کالونی برانچ کو فراہم کیے گئے نوٹوں میں سے صرف 10 غلط شائع شدہ  نوٹ سامنے آئے ہیں — اسکرین شاٹ
بیان میں کہا گیا کہ این بی پی ماڈل کالونی برانچ کو فراہم کیے گئے نوٹوں میں سے صرف 10 غلط شائع شدہ نوٹ سامنے آئے ہیں — اسکرین شاٹ

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے غلط پرنٹ شدہ کرنسی نوٹوں کے معاملے پر وضاحت جاری کردی۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کے پاس غلط پرنٹ شدہ بینک نوٹ الگ کرنے کا مضبوط نظام موجود ہے، بڑے پیمانے پر پروڈکشن کے عمل میں ایسے نقائص کا خدشہ رہتا ہے، تمام کوالٹی چیکس کے باوجود غلط پرنٹ شدہ بینک نوٹوں میں سے چند نوٹ بینکوں یا عوام تک پہنچنے کا امکان ہوتا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ این بی پی ماڈل کالونی برانچ کو فراہم کیے گئے نوٹوں میں سے صرف 10 غلط شائع شدہ نوٹ سامنے آئے ہیں، ملک میں پرنٹ ہونے والے اور زیر گردش نوٹوں کی مجموعی تعداد کے لحاظ سے یہ مقدار انتہائی معمولی ہے۔

مرکزی بینک نے کہا کہ غلط پرنٹ شدہ نوٹوں کی جگہ درست نوٹ ایس بی پی بی ایس سی کے کاؤنٹرز سے حاصل کیے جاسکتے ہیں، مستقبل میں اس قسم کے واقعے سے بچنے کے لیے اندرونی کنٹرولز کو مزید بہتر بنایا جارہا ہے۔

واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر ادھوری پرنٹنگ والے نوٹوں کی ویڈیو وائرل ہونے پر صارفین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی جس پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے تحقیقات کا اعلان کردیا تھا۔

مبینہ طور پر ایک بینک کے عملے کی جانب سے بنائی گئی ایک ویڈیو میں ایک شخص کو دیکھا گیا ہے جو خود کو ماڈل کالونی میں واقع نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) کی برانچ کا منیجر بتاتا ہے، اسے ہزار روپے کے 2 نوٹ تھامے دیکھا جا سکتا ہے جن کی ایک سائیڈ پرنٹ شدہ جبکہ دوسری سائیڈ بالکل خالی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ کتنے بنڈل پہلے ہی بھیجے جا چکے ہیں، یہ ایک صارف نے واپس کیے جس سے ہمیں اس بارے میں معلوم ہوا۔

رابطہ کرنے پر اسٹیٹ بینک کے چیف ترجمان نے کہا تھا کہ معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ حقائق پر مبنی ہے یا نہیں، یہ ایک انوکھا واقعہ ہے اور ایسا خال خال ہی ہوتا ہے، اگر یہ سچ ہے بھی تو یہ بینک کی صرف ایک برانچ کا مسئلہ ہے۔

کارٹون

کارٹون : 26 دسمبر 2024
کارٹون : 25 دسمبر 2024