’اچھی‘ عدالت میں ٹرائل ہو تو عمران خان جلد رہا ہو جائیں گے، عارف علوی
سابق صدر مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ پاکستان بڑے مشکل حالات سے گزر رہا ہے، سیاسی قوتیں اور اسٹیبلشمنٹ پاکستان کو جوڑنے کے لیے اچھے اقدام کریں اور ملک کو جوڑنے کے لیے سب سے اہم بات عمران خان کی رہائی ہے، اگر ان کا ’اچھی‘ عدالت کے اندر ٹرائل ہو تو وہ بہت جلدی رہا ہو جائیں گے۔
سابق صدر مملکت نے صدارت کا منصب چھوڑنے کے بعد کراچی میں پہلی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے میری بہت عزت افزائی کی اور عمران خان نے مجھے صدر کے عہدے کے لیے منتخب کیا جس کے لیے میں ان کا مشکور ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بڑے مشکل حالات سے گزر رہا ہے جو سب کے سامنے عیاں ہیں کہ معیشت دو تین سال سے زوال پذیر رہی ہے اور ملک انتشار کا شکار رہا ہے، ملک کے معاملات کو صحیح سمت میں لے جانے کے لیے ہر کوشش کی جائے ، ملک کو جوڑا جائے اور ملک میں منافرت کو کم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ملک نے جس مینڈیٹ کا اظہار کیا ہے اس کا احترام کیا جائے، عمران خان پر 200 کے قریب مقدمات ہیں جس میں سے تین بڑے مقدمات کے فیصلے بھی آئے ہیں اور اگر ان کا ’اچھی‘ عدالت کے اندر ٹرائل ہو تو وہ بہت جلدی رہا ہو جائیں گے۔
عارف علوی نے کہاکہ پاکستان کو جوڑنے کے لیے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ عمران خان کو رہا ہونا چاہیے اور میں یہ بات ابھی نہیں کہہ رہا بلکہ اگر آپ نے میری گزشتہ دو ماہ کی تقریریں سنی ہوں تو میں نے اس میں بھی مینڈیٹ کا ذکر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملکی استحکام، معیشت اور سیاسی حالات کے اعتبار کے حساب سے ضروری ہے کہ ملک کو جوڑا جائے اور ملک کو جوڑنے کے لیے سب سے بڑی پیشرفت یہی ہونی چاہیے کہ مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے اور میں سیاسی قوتوں سے بھی کہتا ہوں کہ اس بات پر توجہ دیں اور اسٹیبلشمنٹ سے بھی کہتا ہوں کہ پاکستان کو جوڑنے کے لیے اچھے اقدام کیے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلے دو ڈھائی سال کے دوران سر کے بل کھڑا ہو کر جتنا کام کر سکتا تھا وہ کیا، ہر اعتبار سے کوشش کی کہ معاملے کو جوڑا جائے، اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور زندگی کا سارا علم استعمال کر لیا لیکن اس میں مجھے کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔
مختلف جماعتوں کی آئین کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات کرنے کے حوالے سے سوال پر سابق صدر نے کہا کہ میں آئین کی پاسداری کی، میں نے جو مناسب سمجھا وہ کیا، میں کوئی آئینی ماہر اور جو مجھے بہترین مشورہ ملا وہ کیا اور عدالت نے بھی آرٹیکل 6 کا کوئی ذکر نہیں کیا، اس کے باوجود اگر کوئی چاہتا ہے کہ آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی جائے تو عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں حلفیہ یہ بات کہتا ہوں کہ میری جب بھی عمران خان سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کے حوالے سے میری کوئی ترجیحات نہیں ہیں اور میرٹ ترجیح ہونی چاہیے۔
سائفر کے حوالے سے سوال پر سابق صدر مملکت نے کہا کہ وزیر حلف اٹھاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ کوئی بھی راز مجھے پتا چلے گا تو میں وزیراعظم کی اجازت کے بغیر اس راز کا پبلک نہیں کروں گا لیکن جب وزیراعظم حلف اٹھاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ کوئی بھی چیز مجھے پتا چلے تو میں اس بات کا فیصلہ کروں گا کہ عوام کے مفاد میں اسے پبلک کرنا ہے یا نہیں، وزیراعظم تو آئین کے مطابق حلف ہی یہی اٹھاتا ہے کہ جس چیز کو میں سمجھتا ہوں کہ پبلک کے سامنے عیاں کرنا چاہیے تو میں وہ کروں گا، سائفر بھی اسی کی ایک مثال ہے۔
انہوں نے تصدیق کی کہ میرے پاس سائفر بھیجا گیا تھا۔
عارف علوی نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ میں یہ نہیں کہوں گا کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشیدگی ختم کرنے کے لیے کوئی بات چیت چل رہی ہے لیکن کشیدگی ختم ہونی چاہیے، یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کی فوج میری فوج ہے، عوام میرے عوام ہیں، پاکستان کی سیاسی جماعتیں میری سیاسی جماعتیں ہیں اور سب ملک سے وفادار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کووڈ میں فوج اور سویلین حکومت نے مل کر کام کیا اور ہم کووڈ کو حل کرنے میں دنیا میں تیسرے نمبر پر رہے، یورپ میں تباہی ہوئی، پڑوسی ملک بھارت میں لوگ مرتے رہے، ملک کو جوڑ دیا جائے تو یہ ملک اچانک ترقی کرے گا۔