’بھٹو کی پھانسی کے اتنے عرصے بعد فیصلہ آنا قابل مذمت ہے‘ سپریم کورٹ کے فیصلے پر ماہرین کی رائے
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے رائے دی ہے کہ ذوالفقار بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج صدارتی ریفرنس پر محفوظ رائے دی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بھٹو صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی متفقہ رائے ہے، ہم ججز قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کے پابند ہیں۔
عدالت کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ تاریخ میں کچھ کیسز ہیں جنہوں نے تاثر قائم کیا عدلیہ نے ڈر اور خوف میں فیصلہ دیا، ماضی کی غلطیاں تسلیم کیے بغیر درست سمت میں آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر قانونی ماہرین کیا رائے رکھتے ہیں، اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے پچھلے فیصلے کے قانونی اثر کو برقررار رکھا، بیرسٹر اسد
اس حوالے سے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر اسد رحیم کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس صاحب نے درست کہا کہ ماضی کی غلطیوں کو ٹھیک کرنا چاہیے لیکن اس کے شانہ بشانہ عدالت نے کہا کہ وہ ایڈوائزری دائرہ اختیار میں اس فیصلے کو مسترد نہیں کرسکتے ہیں تو اتنی طویل سماعت کے نتیجے میں یہ ضرور تعمیری ہے کہ آپ نے کہا کہ یہ ٹرائل بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھا لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی سوچنا چاہیے کہ آپ نے عدالت عالیہ لاہور کے فیصلے کو رد نہیں کیا۔
انہوں نے بتایا کہ میرا خیال سے اگلا سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کس حد تک اُس سماعت کو درست آپ کر بھی سکتے ہیں نصف صدی بعد، اور کیا عدالت عظمی کو اتنے زیادہ وسائل اس کیس پر خرچ کرنے چاہیے تھے؟ کیونکہ عدالت عظمی نے خود کہا کہ ہم پچھلے فیصلے کو رد نہیں کر رہے تو اس کے قانونی اثر کو تو انہوں نے برقرار رکھا لیکن قانون اور تاریخ کے طالب علموں کے لیے یہ واضح کردیا کہ یہ ٹرائل بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھا۔
یہ ہمارے قانون کے منہ پر طمانچہ ہے، محمود سدوزئی
ماہر قانون محمود سدوزئی نے ڈان کو بتایا کہ یہ فیصلہ بھٹو صاحب کی پھانسی کے کتنے عرصے بعد آیا ہے؟ یہ انتہائی افسوسناک ہے، یہ ہمارے قانون کے منہ پر طمانچہ ہے ، عدالتیں انصاف کرتی ہیں اور حقوق کا تعین آئین کرتا ہے، اور جب آئین میں کوئی رکاوٹیں آتی ہیں تو عدالتیں آگے بڑھ کر اسے دور کرتی ہیں اب اس طرح فیصلے آنے شروع ہوگئے کہ ایک شخص کے ساتھ سب ہو چکا اور 30، 40 سال بعد آپ فیصلے دے رہے ہیں تو یہ انتہائی قابل افسوس اور قابل مذمت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بھی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو چاہیے کہ اس کیس کو مشعل راہ بناتے ہوئے ان کیسز پر فیصلہ کریں جو ان سب کے سامنے پڑے ہوئے ہیں، یہاں جو ظلم اور زیادتی ہورہی ہے اگر اس کے فیصلے بھی 50 سال بعد ہوں گے تو جوڈیشل سسٹم ٹوٹ جائے گا اور ایسی صورتحال ہوگی تو لوگ اپنی مدد آپ کے تحت تشدد کریں گے اور عدالتوں پر بھروسہ نہیں کرتے۔
اس فیصلے کے ذریعے سپریم کورٹ نے عدالتی قتل کے دھبےکو دھونے کی کوشش کی، حافظ احسان
ماہر قانون حافظ احسان نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے ڈان نیوز کو بتایا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کو جو ایڈوائزری دائرہ اختیار آرٹیکل 186 (1) , (2) میں دیا گیا تھا اس کے نیچے 5 چیزیں بنیادی طور پر رکھی گئی تھیں کہ کیا جو بھٹو صاحب تھے انہیں صاف، شفاف اور بنیادی ٹرائل کا موقع فراہم کیا گیا، دوسرا یہ کہ کیا وہ قرآن و سنت کے مطابق سزا تھی؟ تیسرا یہ کیا کہ اس فیصلے کو آپ مثال بنا کر بیان کر سکتے ہیں؟ چوتھا یہ کہ کیا وہ فیصلہ غیر جانبدار فیصلے کے پیمانے پر اترتا ہے اور پانچواں یہ کہ کیا شواہد کافی تھے؟ تو بنیادی سوال جو ہمیشہ سے اٹھا وہ یہی تھا کہ کیا ان کو ٹرائل کا صحیح موقع ملا یا نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ریفرنس کا مقصد ہی یہی تھا کہ جو فیئر چانس ملنا چاہیے تھا وہ ملا یا نہیں اور سپریم کورٹ نے اس بات کی وضاحت کردی ہے، سپریم کورٹ نے تمام پروسس کو درست کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر صاف ٹرائل ہوتا تو شاید فیصلہ مختلف ہوتا، اور سپریم کورٹ پر جو دھبہ لگا تھا کہ یہ عدالتی قتل ہے تو اس فیصلے سے سپریم کورٹ نے اس دھبے کو دھونے کی کوشش بھی ہے، ایک چیز جو اس کے اندر اہم ہے وہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے 44 سال بعد اس معاملے کو کسی بھی طرح حل کرنے کی کوشش کی ہے۔