لاہور ہائیکورٹ نے پرویز مشرف کو بری کرکے وہ ریلیف دیا جو مانگا ہی نہیں گیا تھا، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے سابق فوجی آمر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔
’ڈان نیوز‘ کے مطابق سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ احکامات کے بھی خلاف ہے، خصوصی عدالت کے فیصلوں کےخلاف اپیلیں سپریم کورٹ ہی سن سکتی ہے، لاہور ہائی کورٹ کو خصوصی عدالت کی تشکیل کا مقدمہ سننے کا اختیار نہیں تھا۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں ریمارکس دیے کہ خصوصی عدالت اسلام آباد میں تھی اس وجہ سے بھی لاہور ہائی کورٹ مقدمہ سننے کی مجاز نہیں تھی، خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق مجاز فورم پر موجود تھا، متعلقہ فورم کو چھوڑ کر لاہور ہائی کورٹ سے رجوع نہیں کیا جا سکتا تھا۔
فیصلے میں مزید ریمارکس دیے گئے کہ ہائی کورٹ کا یہ کہنا درست نہیں کہ خصوصی عدالت کی تشکیل وفاقی حکومت نے نہیں کی تھی، خصوصی عدالت کی تشکیل کی منظوری وفاقی کابینہ سے بعد میں لی گئی تھی۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا کہ مصطفیٰ ایمپیکس کیس کا سپریم کورٹ کا فیصلہ خصوصی عدالت کی تشکیل کے بعد آیا تھا، لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کو بری کرکے وہ ریلیف دیا جو مانگا ہی نہیں گیا تھا۔
یاد رہے کہ 10 جنوری 2024 کو سپریم کورٹ نے سابق فوجی آمر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی سزا کے خلاف اپیل خارج کرتے ہوئے خصوصی عدالت کا سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھنے کا حکم دے دیا تھا۔
سنگین غداری کیس کا پس منظر
واضح رہے کہ 17 دسمبر 2019 میں اسلام آباد میں خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت انہیں سزائے موت دینے کا حکم دے دیا تھا۔
یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئین توڑنے پر کسی سابق فوجی سربراہ یا سابق صدر کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔
خیال رہے کہ سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف نے 3 نومبر، 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے 1973 کے آئین کو معطل کردیا تھا جس کی وجہ سے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اعلیٰ عدالت کے 61 ججز فارغ ہوگئے تھے۔
اس دوران ملک کے تمام نجی چینلز کو بند کردیا گیا تھا اور صرف سرکاری نشریاتی ادارے ’پی ٹی وی‘ پر ایمرجنسی کے احکامات نشر کیے گئے جس میں ’انتہا پسندوں کی سرگرمیوں میں بڑھتے ہوئے اضافے کو‘ ایمرجنسی کی وجہ بتایا گیا تھا۔
بعد ازاں 2013 میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے وزارتِ داخلہ کے ذریعے سنگین غداری کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی، جسے خصوصی عدالت نے 13 دسمبر 2013 کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے سابق صدر کو اسی سال 24 دسمبر کو طلب کیا تھا۔
اس کیس میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نومبر 2013 میں ایڈووکیٹ اکرم شیخ کو استغاثہ ٹیم کا سربراہ مقرر کیا تھا۔
ابتدائی طور پر جنرل (ر) پرویز مشرف کی قانونی ٹیم نے ایڈووکیٹ اکرم شیخ کی بطور چیف پراسیکیوٹر تعیناتی چیلنج کی تھی لیکن غداری کیس کے لیے مختص خصوصی عدالت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس چیلنج کو مسترد کردیا تھا۔
فروری 2014 میں جنرل (ر) پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے جس کے بعد عدالت نے 18 فروری 2014 کو ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔
مارچ 2014 میں خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ اسی سال ستمبر میں پروسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے۔
عدالت نے 8 مارچ 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔
بعد ازاں عدالت نے 19 جولائی 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے خلاف دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا۔
تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی تھی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے حکم کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔
یاد رہے کہ سال 2018 کے آغاز میں خصوصی عدالت نے غداری کیس کی سماعتیں دوبارہ شروع کی تھی اور حکم دیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیا جائے، جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت نے مئی میں عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردیا تھا۔
بعد ازاں 11 جون 2018 کو سپریم کورٹ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کا قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔
20 جون 2018 کو مشرف نے کہا تھا کہ وہ پاکستان واپس آنے کے لیے تیار تھے لیکن سپریم کورٹ کے حکام کو انہیں گرفتار کرنے کے احکامات کے باعث انہوں نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا ہے، جس کے بعد 30 جولائی 2018 کو سنگین غداری کیس میں پراسیکیوشن سربراہ نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
اس کے بعد اگست میں پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے کی وجہ سے رکنے والے ٹرائل کو 20 اگست سے دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، تاہم ان کو خطرات لاحق ہونے کا حوالہ دے کر مشرف نے غداری کیس میں عدالت میں پیش ہونے کے لیے صدارتی سیکیورٹی دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
2 اکتوبر 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود کو ’بہادر کمانڈو‘ کہنے والے مشرف کے واپس نہ آنے پر ان کے وکیل کی سرزنش کی تھی، جس کے بعد نومبر 2018 میں خصوصی عدالت نے مشرف کو حکم دیا تھا کہ وہ غداری کیس میں 2 مئی 2019 کو خصوصی عدالت کے روبرو پیش ہو ورنہ وہ اپنے دفاع کا حق کھو دیں گے۔
یکم اپریل 2019 کو چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے خصوصی عدالت کے لیے حکم جاری کیا تھا کہ پرویز مشرف اگر مقررہ تاریخ تک اپنا بیان ریکارڈ نہیں کراتے تو وہ غداری کیس کو ان کے بیان کے بغیر ہی آگے بڑھائے۔
جون 2019 میں سپریم کورٹ نے نادرا کو پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا جس کے بعد جولائی 2019 میں غداری کیس میں پروسیکیوشن سربراہ نے استعفیٰ دیا۔
اکتوبر میں خصوصی عدالت نے 24 اکتوبر سے غداری کیس کی سماعت روزانہ کرنے کا فیصلہ کیا، 19 نومبر کو سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے اپنی سماعت مکمل کرلی اور کہا کہ فیصلہ 28 نومبر کو سنایا جائے گا۔
تاہم اس فیصلے کے سنانے سے قبل ہی پرویز مشرف نے اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا جبکہ وزارت داخلہ کی جانب سے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں فیصلہ روکنے کے لیے درخواست دائر کردی گئی۔
وزارت داخلہ اور پرویز مشرف کی درخواست پر 27 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے خصوصی عدالت کو سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا۔
بعدازاں 28 نومبر کو سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو 5 دسمبر تک اپنا بیان ریکارڈ کرانے کا حکم دیتے ہوئے مقدمے کی روزانہ بنیادوں پر سماعت کا فیصلہ کیا۔
5 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں استغاثہ کو 17 دسمبر تک کی مہلت دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اس تاریخ کو دلائل سن کر فیصلہ سنا دیں گے اور 17 دسمبر کو کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔
یاد رہے کہ مرحوم پرویز مشرف نے اپنے وکیل سلمان صفدر کے توسط سے سپریم کورٹ میں سزا کے خلاف دائر اپیل میں استدعا کی تھی کہ سزا کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ ان کے خلاف مقدمہ مکمل طور پر آئین اور ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) 1898 کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے بنایا گیا، اس سزا کو معطل کیا جانا انصاف اور منصفانہ عمل کے مفاد میں ہے۔
اپیل میں کہا گیا کہ سابق صدر کے خلاف مکمل طور پر غیر آئینی طریقے سے آئین کے خلاف جرم کے ارتکاب کا مقدمہ چلایا گیا۔
سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف 5 فروری 2023 کو وفات پاچکے ہیں۔