• KHI: Zuhr 12:32pm Asr 4:14pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:28pm
  • ISB: Zuhr 12:08pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:32pm Asr 4:14pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:28pm
  • ISB: Zuhr 12:08pm Asr 3:27pm

بلاول بھٹو کی میثاق مفاہمت کی حمایت، عدالتی و انتخابی اصلاحات کا مطالبہ

شائع March 4, 2024
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے میثاق مفاہمت کی حمایت کرتے ہوئے عدالتی اور الیکشن اصلاحات کا مطالبہ کردیا۔

ڈان نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے چیئرمین پشتونخوا ملی عوامی پارٹی محمود اچکزئی کے گھر پر چھاپے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کی وجہ سے صدارتی الیکشن کو بلاوجہ متنازع کیا جارہا ہے، انہوں نے محمود اچکزئی کے گھر پر مبینہ چھاپے کے خلاف کارروائی کرنے کی اپیل بھی کی۔

بعد ازاں سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ میں اپنے خاندان کی تیسری نسل کا نمائندہ ہوں جو اس ایوان میں دوسری بار منتخب ہوا ہوں، اس عمارت کا جو بنیادی پتھر ہے وہ ذوالفقار علی بھٹو نے لگایا تھا، یہ قومی اسمبلی کسی ایک کی نہیں سب کی ہے، قومی اسمبلی کا ایوان ہم سب کا ہے، قومی اسمبلی کو مضبوط بنانا عوام کو مضبوط بنانا ہے، جب ہم قومی اسمبلی کو کمزور کرتے ہیں تو وفاق، جمہوریت کو کمزور کرتے ہیں، ہمیں اس نظام کو کمزور نہیں مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، میری تمام ارکان سے درخواست ہے کہ ایسےفیصلے کریں جس سے قومی اسمبلی مضبوط ہو۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہم اس جمہوری ادارے کو طاقتور بنائیں گے، ایسے فیصلے کرں گے جس سے نوجوانوں کا مستقبل بہتر ہو، آئندہ آنے والے ہمیں دعائیں دیں کہ انہوں نے قومی اسمبلی کے لیے اچھے فیصلے کیے اور ایسا نہ ہو کہ آئندہ آنے والے ہمیں گالیاں دیں کہ قومی اسمبلی کے ساتھ کیا کیا۔

یہ ایوان تمام اداروں کی ماں ہے، بلاول بھٹو

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ یہ ایوان تمام اداروں کی ماں ہے، عوام ہماری طرف دیکھ رہے ہیں کہ ہم انہیں مشکلات سے نکالیں گے۔

بلاول بھٹو نے اپنے خطاب کے دوران درخواست کی کہ احتجاج کے نام پر ایک دوسرے کو گالیاں نہ دی جائیں اور قومی اسمبلی میں تمام تقریریں سرکاری ٹی وی پر براہ راست دکھائی جائیں۔

انہوں نے بتایا کہ الیکشن کے دوران ہمارے کارکنوں اور امیدواروں پر حملے کیے گئے، کئی کو قتل کیا گیا لہذا ہمیں ایسا نظام بنانا چاہیے کہ کارکنوں کو جان قربان نہ کرنی پڑے۔

بلاول بھٹو نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس ایوان میں کسی ایک جماعت کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے، عوام نےایسا مینڈیٹ دیا کہ تمام جماعتوں کو مل بیٹھ کر فیصلے کرنے ہوں گے، عوام نے الیکشن میں بتایا کہ وہ ہماری آپس کی لڑائی سے تنگ آگئے ہیں، اب ہمیں آپس میں بات کرنی ہوگی، عوام نے ہمیں گالیاں دینے نہیں بلکہ مسائل کے حل کے لیے ووٹ دیا ہے۔

سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سیاست کا ضابطہ اخلاق بنالیں گے تو 90 فیصد مسائل ختم ہوجائیں گے۔

انہوں نے اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ شہباز شریف کو وزیراعظم نہیں مانتے تو ان کی پالیسی پر تنقید نہیں کرسکتے، وزیراعظم نے جو نکات کل اٹھائے ان پر عمل کرکے بحران سے نکل سکتے ہیں، ہم آپ کو دعوت دے رہے ہیں کہ پاکستان اور عوام کو معاشی مشکلات سے نکالیں۔

عدالتی اور الیکشن سے متعلق اصلاحات کرنی ہوں گی، بلاول بھٹو

بلاول بھٹو نے بتایا کہ ملک میں مہنگائی بڑھ رہی ہے مگر آمدن میں اضافہ نہیں ہورہا ہے، ملک میں مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کا سونامی ہے، ہم سالانہ ایک ہزار 500 ارب امیروں کو سبسڈی میں دے دیتے ہیں، غیر ضروری وزارتیں اور امیروں کو سبسڈی دینا بند کرنا ہوگی، امیروں سے سبسڈی کو ختم کرکے غریب عوام کو ریلیف دینا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ میثاق معیشت پر کوئی ایک جماعت فیصلے نہیں کرسکتی ہے، شہباز شریف موقع دے رہے ہیں کہ آئیں مل کر عوام کو معاشی بحران سے نکالیں، وزیراعظم کی پالیسی میں آپ کا مؤقف شامل ہوگا تو بہتر پالیسی بن سکے گی۔

سابق وزیر خارجہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں عدالتی اور الیکشن سے متعلق اصلاحات کرنی ہوں گی، عدالتی، الیکشن ریفارمز پر اپوزیشن بھی ہمارا ساتھ دے، اگر ہم مل کر یہ اصلاحات کرلیں گے تو کوئی جمہوریت کو کمزور نہیں کرسکتا، ہم چاہتے ہیں کہ ایسا الیکشن ہو جہاں وزیراعظم کے مینڈیٹ پر کوئی شکوک نہ ہو، ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن میں شہباز شریف جیتیں یا قیدی نمبر 804، لیکن کوئی انگلی نہ اٹھاسکے۔

بلاول بھٹو نے سائفر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں ملک کا وزیرخارجہ رہا ہوں، جانتا ہوں سائفر کیا ہوتا ہے، اس سائفر کی ہر کاپی کاؤنٹ ہوتی ہے صرف ایک کاپی ہم گن نہیں سکے اور وہ وزیر اعظم کے آفس میں تھی، خان صاحب نے خود مانا کہ انہوں نے ایک خفیہ دستاویز کھو دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ جلسے میں ایسے سائفر لہرانے کی بات نہیں تھی، یہ آڈیو لیک کی بھی بات نہیں ہے، میرے نزدیک مسئلہ یہاں شروع ہوتا کہ جب خان صاحب کو گرفتار کیا جاتا ہے تو اگلے دن گرفتاری کے بعد وہ سائفر ایک غیر ملکی جریدے میں چھپ جاتا ہے تو اگر آپ عوام کو بے وقوف سجھتے ہیں تو آپ غلط ہیں، ہم جانتے ہیں کہ جان بوجھ کر کسی نے اس سائفر کو سیاست کے لیے انٹرنیشنل جریدے میں چھپوایا تاکہ کیسز کو متنازع بنایا جائے، جب آپ خفیہ دستاویز کو پبلک کرتے ہیں تو قومی سلامتی داؤ پر لگتی ہے۔

بلاول کا 9 مئی کے واقعات کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی آئین کی خلاف وزری کرتا ہے تو اس کو سزا دلوانی چاہیے، اگر یہ ہم سے جمہوریت کی بات کریں گے تو میں کہوں گا کہ آپ ہوتے کون ہیں یہ بات کرنے والے، میں اس شخص کا نواسا ہوں جس نے تختہ دار پر ہوتے ہوئے بھی اصولوں کا سودا نہیں کیا، یہ جو لوگ یہاں ہیں جو احتجاج کر رہے ہیں، جن کو 6 مہینے سے جمہوریت یاد آرہی ہے تو اگر انہیں لیکچر دینا ہے تو ایک دوسرے کو دیں ہمیں نہ دیں، یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب پر جھوٹا الزام لگائیں گے اور ہم جواب نہیں دیں گے، لیکن میں ان کے جھوٹ کاپردہ فاش کروں گا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ میں اس قسم کی حرکتوں سے خود مایوس نہیں ہوتا مگر پاکستانی عوام اس قسم کی حرکتوں کو پسند نہیں کرتے، اگر یہ کوئی غیر جمہوری کام کریں گے تو میں ان کے خلاف کھڑا ہوجاؤں گا، یہ ہمارا فرض ہے کہ سب سے پہلے اپنا فرض ادا کریں نہ کہ دوسروں پر تنقید شروع کردیں۔

سابق وزیر خارجہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے حوالے سے علی امین گنڈاپور نے انکوائری کا مطالبہ کیا ہے کہ اس انکوائری کے مطابق ملزمان کو سزا اور بے قصور کو رہا کردینا چاہیے، تو یہ مجھے یقین دہانی کروائیں کہ ہم جو جوڈیشل کمیشن بنوائیں گے تو اس کا فیصلہ ماننا پڑے گا، یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی شہدا کے یادگاروں پر حملہ کرے اور ہم اسے بھول جائیں،ہم وزیر اعظم سے درخواست کرتے ہیں کہ ایک جوڈیشل کمیشن بنائیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سے آپ درخواست کریں کے وہ اس کمیشن کے سربراہ بن کے مئی 9 کے بارے میں تحقیقات کروائیں اور ملزمان کو سزا دلوائیں۔

اس دوران سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے بلاول کی تقریر پر احتجاج اور شورشرابہ شروع کردیا، بلاول بھٹو نے کہا کہ میری باتیں حذف کردیں، مجھے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے تھیں۔

اِس پر اسپیکر ایاز صادق کا کہنا تھا کہ یہ بلاول بھٹو زرداری کا بڑا پن ہے، بعدازاں نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری ایوان سے روانہ ہوگئے۔

محمود اچکزئی کے گھر پر چھاپہ فاشزم کی انتہا ہے، عمر ایوب

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

قبل ازیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے رہنما پاکستان تحریک انصاف عمر ایوب نے کہا ہے کہ گزشتہ رات کو محمود اچکزئی کے گھر پر چھاپہ فاشزم کی انتہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں محمود اچکزئی کے گھر پر چھاپے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں، محمود اچکزئی کے گھر کارروائی کی گئی وہ افسوسناک ہے۔

انہوں نے شکوہ کیا میری کل کی تقریر کو مکمل براہ راست نہیں دکھایا جارہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معصوم ورکر پر احتجاج کرنے کی وجہ سے پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا، ہم اس معاملے پر آپ کی توجہ دلانا چاہتے ہیں، انسپکٹر جنرل ڈاکٹر عثمان کو فوری ہٹایا جائے۔

نہ ہمارا لیڈر جھکے گا نہ ہم جھکیں گے، اسد قیصر

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

بعد ازاں سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ بلاول بھٹو نے سائفر پر بات کی، سائفر پر ہمارا واضح مؤقف ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنایاجائے، ہمارے سفیر کو بلا کر انتہائی برا رویہ اپنایا گیا، کیا یہ سب سائفر کو جھوٹا نہیں کہتے تھے؟ لیکن پھر پھر اسی سائفر کو بنیاد بناکر سزائیں دی گئیں، عوام کو مایوس کرنےکے لیے بانی پی ٹی آئی کو سزا دلوائی گئی، بانی پی ٹی آئی پر من گھرٹ کیسز بنائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارےسفیرکو جس طرح ڈکٹیشن دی گئی وہ قومی غیرت پر سوالیہ نشان ہے، نہ ہمارا لیڈر جھکے گا نہ ہم جھکیں گے، قانون کی حکمرانی پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا، ہم میں سے کوئی ڈرنے والا نہیں ہے، ہمارےگھروں پر چھاپے مار ے گئے، آدھی رات کو ہمیں گرفتار کیا جاتا تھا، ہم پر پی ٹی آئی چھوڑنے کے لیےدباؤ ڈالا جاتا تھا، میں اس وقت بھی کہتا تھا کہ مرجاؤں گ لیکن بانی کو نہیں چھوڑوں گا۔

اسد قیصر نے بتایا کہ ہم ڈر اور خوف سے دور نکل چکے ہیں، ہم سویلین بالادستی کےلیے سب کو اکھٹا کریں گے، فارم 47 والے جانتے ہیں کہ وہ ہارے ہوئےہیں ، کراچی میں ہمارے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا اس وزیراعظم کی کوئی اخلاقی قدر ہے، وزیراعظم کو کوئی شرم محسوس ہورہی ہے؟ ہم ایک نئی جرات کے ساتھ تحریک چلائیں گے تاکہ آئندہ دھاندلی نہ ہو، آئین اور قانون میں رہ کر اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی پر مقدمات کی کوئی حقیقت نہیں، سب من گھڑت ہیں، بانی پی ٹی آئی کیخلاف جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا، انہوں نے مطالبہ کیا کہ بانی پی ٹی آئی، ان کی اہلیہ سمیت دیگر کے خلاف کیسز ختم کیےجائیں او انہیں رہا کیا جائے، ہمیں حق نہیں ملا تو کوئی یہاں حکومت نہیں کرے گا۔

اپوزیشن کےخدشات دور کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے، خالد مقبول

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

بعد ازاں اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے رہنما متحدہ قومی موومنٹ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ اپوزیشن کےخدشات دور کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے، ہماری شناخت فارم 47 نہیں 1947 ہے، سنی اتحاد کونسل کے لوگ بات نہیں سمجھتے، شور کے بجائے قانون و آئین کا راستہ اپنایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم شکایتوں اور خدشات کے باوجود جمہوری عمل کا حصہ بنے، ہمارا سب سے بڑا مسئلہ معاشی نہیں بلکہ نیتوں کا ہے، ٹیکس لگانا ہے تو جاگیردارانہ نظام پر ٹیکس لگائیں۔

انہوں نے کہا کہ یہاں آئین معذور، قانون مجبور، انصاف مفرور اور عدالتیں یرغمال نظر آتی ہیں۔

بیرسٹر گوہر خان نے ایوان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے تصور نہیں کیا تھا کہ کسی ایسے بندے کا انتخاب ہوگا جس کے پاس پبلک مینڈیٹ نا ہو، انہوں نے کہا کہ بلاول اپنے نانا کی سیاست کو دفن کر کے گئے ہیں۔

اسی دوران راجا پرویز اشرف نے کہا کہ اگر آپ ہمارے لیڈر کے بارے میں غلط بات کریں گے تو آپ کے لیڈر کو بھی کوئی نہیں بخشے گا، چیئرمین پی ٹی آٗی آپ اپنے ساتھیوں کو سلیقہ سکھائیں۔

ہمارے 100 ان کے 200 پر بھاری ہیں، بیرسٹر گوہر

بعد ازاں چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ میں یہ کہہ رہا تھا کہ یہ لوگ ہمیں درس دیتے ہیں اپنے گریبانوں میں جھانکنے کا لیکن جب پی ڈی ایم حکومت آئی تو کیا انہوں نے نیب سے اپنے کیسز معاف نہیں کروائے؟ اگر ان کو گھمنڈ ہے جمہوریت پر تو ہماری عورتوں کے جیل جانے کی مذمت کی تھی انہوں نے؟ ان کو جمہوریت راس نہیں، عمران خان پاور شیئرنگ پر یقین نہیں رکھتا ہے۔

انہوں نے دریافت کیا کہ کیا پیپلز پارٹی میں کوئی ایسا نہیں کہ اس کو صدارت دی جائے زرداری کے علاوہ؟ یہ لوگ تو ذاتی مفادات کے لیے آتے ہیں، رمران خان کا کوئی بیٹا، بھتیجا ایوان میں موجود نہیں، انہوں نے کہا کہ ہمارے 100 ان کے 200 پر بھاری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس انتخابات میں ایم کیو ایم نے اپنے اصولوں کی سودے بازی کی ہے، انہوں نے ہماری سیٹیں چھینی ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ سائفر ایک حقیقت ہے، ان لوگوں کا ٹرائل ہونا چاہیے جنہوں نے حکومت ختم کی نا کہ اس کی جس کی حکومت گرائی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ان کو وزیر اعظم نہیں مانتے لیکن انہوں نے ہماری عورتوں کو رہا کروانے کا نہیں کہا، جمہوریت کے وہ اصول جو سنہری ہیں یہ لوگ اسے قربان کر چکے ہیں، یہ جمہوری نہیں مفاد پرست ہیں، انہوں نے نیب کے قانون میں ترمیم کی، سب سے بڑی کابینہ بنوائی۔

انہوں نے کہا کہ ہماری تقریر نشر نہیں ہوتی، ہمیں بلیک آؤٹ کیا جاتا ہے، عمران خان کی بات نہیں ہوسکتی تو ایسا کیوں ہے؟ ہمیں اس پارلیمنٹ میں ہوتے ہوئے ایک جیسا نہیں مانا جاتا تو ایسے نہیں چلا جاسکتا ہے۔

میں وزیر اعظم سے گزارش کروں گا کہ سیاسی قیدیوں کی رہائی کی جائے، اختر مینگل

بعد ازاں اختر مینگل نے ایوان میں بات کرتے ہوئے محمود اچکزئی کے گھر پر چھاپے کی مذمت کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ مجھے امید تھی کہ وزیر اعظم تقریر کے دوران صحافی اسد علی طور اور عمران ریاض کی رہائی کا اعلان کریں گے، صحافی تو ہمیں راہ راست دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں وزیر اعظم سے گزارش کروں گا کہ سیاسی قیدیوں کی رہائی کی جائے۔

بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس 8 مارچ، شام 5 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2024
کارٹون : 23 دسمبر 2024