پاک سوزوکی نے کاروں کی قیمتیں ایک لاکھ 80 ہزار تک بڑھا دیں
گزشتہ 5 مہینوں کے دوران روپے کی قدر میں بہتری کے باوجود پاک سوزوکی موٹر کمپنی لمیٹڈ نے کاروں کے مختلف ماڈلز کی قیمتوں میں 65 ہزار روپے سے ایک لاکھ 80 ہزار روپے تک کا اضافہ کرکے صارفین کو ششدر کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ستمبر 2023 کے اوائل میں انٹربینک مارکیٹ میں پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر 307 روپے 10 پیسے تھی، جبکہ امریکی کرنسی کی موجودہ قدر 279 روپے 19 پیسے ہے، نتیجتاً درآمدی پارٹس کی لاگت میں آئی ہے۔
قیمت میں اضافے کی وجوہات کا ذکر نہ کرتے ہوئے مجاز ڈیلرز کو جاری سرکلر کے مطابق پاک سوزوکی نے سوزوکی آلٹو وی ایکس، وی ایکس آر، وی ایکس آر (اے جی ایس)، اور وی ایکس ایل (اے جی ایس) کی قیمت بالترتیب بڑھا کر 23 لاکھ 31 ہزار، 27 لاکھ 7 ہزار، 28 لاکھ 94 ہزار، 30 لاکھ 45 ہزار کردی، یہ کاریں پہلے 22 لاکھ 51 ہزار، 26 لاکھ 12 ہزار، 27 لاکھ 99 ہزار، 29 لاکھ 35 ہزار روپے میں دستیاب تھیں۔
ایک لاکھ 10 ہزار روپے سے ایک لاکھ 80 ہزار روپے اضافے کے بعد سوزوکی کلٹس وی ایکس آر، وی ایکس ایل اور اے جی ایس ماڈلز کی قیمت بالترتیب 38 لاکھ 58 ہزار، 42 لاکھ 44 ہزار، 45 لاکھ 46 ہزار روپے کر دی گئی ہے، یہ پہلے 37 لاکھ 18 ہزار، 40 لاکھ 84 ہزار اور 43 لاکھ 66 ہزار روپے میں فروخت کی جاتی تھیں۔
سوزوکی سوئفٹ جی ایل، ایم ٹی، جی ایل سی وی ٹی، اور جی ایل ایکس سی وی ٹی اب بالترتیب 44 لاکھ 21 ہزار، 47 لاکھ 19 ہزار اور 51 لاکھ 25 ہزار روپے میں دستیاب ہوں گی، ان کی قیمتیں پہلے 43 لاکھ 66 ہزار، 46 لاکھ 54 ہزار اور 50 لاکھ 40 ہزار روپے تھیں، ان ماڈلز کے نرخوں میں 65 ہزار سے 85 ہزار روپے تک کا اضافہ کیا گیا ہے۔
پاک سوزوکی کے ہیڈ آف کارپوریٹ امور شفیق احمد شیخ نے اضافے کا جواز پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کمپنی نے ایک سال سے زائد عرصے سے قیمتیں نہیں بڑھائیں، حالانکہ متعدد وجوہات کی وجہ سے پیداوار میں تعطل کے نتیجے میں بھاری نقصان برداشت کرنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی، معین اخراجات، خام مال اور آلات کی لاگت اور ترسیل کے اخراجات کے سبب پاک سوزوکی کے لیے انتہائی مشکل ہے کہ وہ گاڑیوں کی موجودہ قیمت فروخت برقرار رکھ سکے۔
مزید کہا کہ بحیرہ احمر کی صورتحال کے نتیجے میں کمپنی کے لیے قیمتوں کو کنٹرول کرنا دشوار ہے، کیونکہ شپمنٹ کے اخراجات زیادہ ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ کمپنی نے صرف ایک حصہ صارفین کو منتقل کیا ہے جبکہ بُلند لاگت کا بڑا حصہ خود برداشت کر رہی ہے۔