• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

سینیٹ اجلاس میں 2 اراکین سندھ اسمبلی کی شرکت نے ’الجھن‘ پیدا کردی

شائع March 2, 2024
—فوٹو: سوشل میڈیا
—فوٹو: سوشل میڈیا

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 9 مارچ کو صدارتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کردیا ہے جس کے بعد 14 مارچ کو سینیٹ کی 6 نشستوں پر پولنگ ہوگی، تاہم پارلیمنٹ کا ایوان بالا الجھن کا شکار ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی 6 نشستیں ایوان بالا کے اراکین کے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر منتخب ہونے کے بعد خالی ہوئی ہیں۔

آئین کا آرٹیکل 223 واضح طور پر دوہری رکنیت پر پابندی عائد کرتا ہے، آرٹیکل کی ذیلی دفعہ 4 کے تحت اگر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یا صوبائی اسمبلی کا کوئی رکن دوسری نشست کے لیے امیدوار بنتا ہے (جسے وہ اپنی پہلی نشست کے ساتھ برقرار نہیں رکھ سکتا) تو دوسرے نشست پر اس کے منتخب ہوتے ہی اس کی پہلی نشست خالی ہو جاتی ہے۔

تاہم گزشتہ روز آئینی شق کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے سینیٹ کے اجلاس میں 2 ’اجنبیوں‘ نے شرکت کی، ان میں پاکستان پیپلزپارٹی کے نثار کھوڑو اور جام مہتاب ڈہر شامل تھے، جو پہلے ہی سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔

اِن دونوں کے نام اُن 6 سینیٹرز کی فہرست میں شامل ہیں جن کی نشستیں خالی ہوچکی ہیں اور ان پر 14 مارچ کو انتخابات ہونے والے ہیں۔

فہرست میں شامل دیگر افراد میں قومی اسمبلی کی نشستیں جیتنے والے یوسف رضا گیلانی اور مولانا عبدالغفور حیدری، بلوچستان اسمبلی کی نشستیں جیتنے والے سرفراز بگٹی اور شہزادہ احمد عمر شامل ہیں۔

سرفراز بگٹی نے گزشتہ برس اگست میں نگران وزیر داخلہ کے طور پر حلف اٹھایا تھا تاہم وہ دسمبر میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنے کے لیے مستعفی ہو گئے تھے۔

یہ بھی ایک قانونی سوال ہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہونے کے بعد ان کا عہدہ خالی کیوں نہیں قرار دیا گیا؟

آئینی ماہر اور سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی سے جب آئین کے آرٹیکل 223 پر تبصرے کے لیے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ قانون بہت واضح ہے اور کسی رکن اسمبلی کی نشست کسی دوسری اسمبلی میں منتخب ہونے کے بعد خود بخود خالی ہو جاتی ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے گزشتہ روز جاری کردہ باضابطہ شیڈول کے مطابق صدر کے عہدے کے لیے انتخابات 9 مارچ کو ہوں گے جس کے لیے کاغذات نامزدگی آج ہفتے کی دوپہر تک جمع کرائے جاسکتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے مطابق کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال 4 مارچ تک مکمل کی جائے گی جبکہ 5 مارچ کو کاغذات نامزدگی واپس لیے جاسکیں گے، امیدواروں کی حتمی فہرست 6 مارچ کو جاری کی جائے گی اور پولنگ 9 مارچ کو ہوگی۔

قبل ازیں 8 ستمبر 2023 کو ڈاکٹر عارف علوی نے اپنی 5 سالہ مدت پوری کرلی تھی لیکن الیکٹورل کالج کی عدم موجودگی میں وہ مزید 6 ماہ تک عہدے پر برقرار رہے۔

آئین کے آرٹیکل 44 کے تحت صدر کا انتخاب 5 سال کے لیے کیا جاتا ہے لیکن اس کی ایک شق یہ کہتی ہے کہ وہ اُس وقت تک اِس عہدے پر برقرار رہے گا جب تک کہ اگلا صدر منتخب نہیں ہوجاتا۔

آئین کے آرٹیکل 41 (4) کے تحت صدر کا انتخاب اس عہدے کے خالی ہونے کے 60 دن سے پہلے اور 30 دن بعد تک نہیں ہوسکتا، تاہم قانون یہ کہتا ہے کہ اگر قومی اسمبلی تحلیل ہوتی ہے تو عام انتخابات کے 30 دن کے اندر صدر مملکت کے عہدے کے لیے انتخابات ہوں گے۔

14 مارچ کو سینیٹ انتخابات

الیکشن کمیشن نے سینیٹ کی 6 نشستوں پر 14 مارچ کو انتخابات کا اعلان بھی کردیا۔

شیڈول کے مطابق کاغذاتِ نامزدگی ہفتہ اور اتوار کو جمع کرائے جاسکتے ہیں جس کے بعد 3 مارچ کو امیدواروں کی فہرست آویزاں کی جائے گی جبکہ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال 5 مارچ تک مکمل کی جائے گی۔

اسی طرح کاغذات نامزدگی پر اپیلیں 7 مارچ تک جمع کرائی جا سکتی ہیں اور ٹربیونلز 9 مارچ تک اپیلیں نمٹا دیں گے، کاغذات نامزدگی 10 مارچ تک واپس لیے جاسکتے ہیں۔

سینیٹ کی 6 نشستوں میں سے ایک نشست کے لیے پولنگ قومی اسمبلی میں، 2 نشستوں کے لیے سندھ اسمبلی اور 3 نشستوں کے لیے پولنگ بلوچستان اسمبلی میں ہو گی۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024