روسی صدر نے مغربی ممالک کو جوہری جنگ کے خطرے سے خبردار کردیا
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے مغربی ممالک سے کہا کہ اگر وہ یوکرین میں لڑنے کے لیے فوج بھیجتے ہیں تو وہ جوہری جنگ بھڑکانے کا خطرہ مول لیں گے اور خبردار کیا کہ ماسکو کے پاس مغرب میں اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ہتھیار موجود ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق یوکرین میں جنگ نے 1962 کے کیوبا میزائل بحران کے بعد سے مغرب کے ساتھ ماسکو کے تعلقات میں بدترین بحران پیدا کر دیا ہے۔
ولادیمیر پیوٹن پہلے بھی نیٹو اور روس کے درمیان براہ راست تصادم کے خطرات کے بارے میں بات کر چکے ہیں، لیکن ان کی جمعرات کی جوہری وارننگ سب سے واضح تھی۔
قانون سازوں اور ملک کی اشرافیہ کے دیگر ارکان سے خطاب کرتے ہوئے 71 سالہ ولادیمیر پیوٹن نے اپنے اس الزام کو دہرایا کہ مغرب، روس کو کمزور کرنے پر تلا ہوا ہے اور کہا کہ مغربی رہنما یہ نہیں سمجھ رہے کہ روس کے اندرونی معاملات میں ان کی مداخلت کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔
انہوں نے اپنے جوہری انتباہ کو ایک خاص حوالے سے پیش کیا جو پیر کے روز فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے پیش کیا تھا، جس میں انہوں نے یورپی نیٹو کے اراکین کی طرف سے یوکرین میں زمینی فوج بھیجنے کی بات کی تھی، یہ وہ تجویز تھی جسے امریکا، جرمنی، برطانیہ اور دیگر نے فوری طور پر مسترد کر دیا تھا۔
ولادیمیر پیوٹن کا کہنا تھا کہ ’مغربی ممالک کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے پاس ایسے ہتھیار بھی ہیں جو ان کی سرزمین پر اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں، اس سے واقعی جوہری ہتھیاروں کے استعمال اور تہذیب کی تباہی کے ساتھ تصادم کا خطرہ ہے، کیا وہ بات نہیں سمجھتے؟!‘
15 سے 17 مارچ کے صدارتی انتخاب سے قبل، جب ان کا چھ سال کی مدت کے لیے دوبارہ منتخب ہونا یقینی ہے، انہوں نے اس بات کی تعریف کی جو انہوں نے کہا کہ روس کے پاس جدید ترین جوہری ہتھیار ہے، جو دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
روسی صدر نے کہا کہ ’اسٹریٹجک جوہری قوتیں پوری طرح سے تیار ہیں‘، ساتھ ہی کہا کہ ’نئی نسل کے ہائپرسونک جوہری ہتھیاروں کے بارے میں جب انہوں نے 2018 میں پہلی بار بات کی تھی تب یا تو وہ صف آرا کر دیے گئے تھے یا اس مرحلے پر تھے جہاں ان کی ترقی اور جانچ مکمل ہو رہی تھی۔‘
بظاہر ناراض نظر آنے والے ولادمیر پیوٹن نے مغربی سیاست دانوں کو مشورہ دیا کہ وہ نازی جرمنی کے ایڈولف ہٹلر اور فرانس کے نپولین بوناپارٹ جیسے لوگوں کی قسمت کو یاد کریں جنہوں نے ماضی میں روس پر ناکام حملہ کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’لیکن اب اس کے نتائج کہیں زیادہ المناک ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وہ سمجھتے ہیں کہ یہ (جنگ) ایک کارٹون ہے،‘ انہوں نے مغربی سیاست دانوں پر الزام لگایا کہ وہ بھول گئے ہیں کہ حقیقی جنگ کا کیا مطلب ہے کیونکہ انہوں نے گزشتہ تین دہائیوں میں روسیوں کی طرح سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا نہیں کیا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق فرانس نے یورپی ممالک کی طرف سے یوکرین میں فوج بھیجنے کا عندیہ دیا تھا جس کے بعد روس نے یوکرین کے اتحادی یورپی ممالک کو خبردار کیا تھا۔
روس نے کہا تھا کہ یوکرین میں ان کے خلاف فوج بھیجنے کی صورت میں وہ بھی جنگ کا دائرہ وسیع کریں گے اور ایسی صورت حال میں نیٹو اور روس کا تصادم ناگزیر ہوجائے گا۔
فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے پیر کی شام اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ ہمیں اس امکان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ سیکیورٹی کی ضرورت ہو سکتی ہے جس کے لیے فوجی تعیناتی کی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ اس اجلاس میں امریکا اور کینیڈا کے علاوہ یورپی ممالک کے سربراہان نے شرکت کی تھی۔
فرانس کی جانب سے یوکرین میں اپنی فوج بھیجنے کے عندیے اور پھر روس کے مؤقف کے بعد نیٹو سربراہ نے وضاحت پیش کی کہ امریکی زیرقیادت فوجی اتحاد کا یوکرین میں فوجی دستے بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں جبکہ جرمنی اور پولینڈ نے بھی یوکرین میں روس کے خلاف فوجی بھیجنے سے انکار کردیا ہے۔