• KHI: Zuhr 12:29pm Asr 4:11pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 12:05pm Asr 3:25pm
  • KHI: Zuhr 12:29pm Asr 4:11pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 12:05pm Asr 3:25pm

’عدالتی کارروائی میں طریقہ کار درست اپنایا گیا یا نہیں؟‘ بھٹو پھانسی ریفرنس پرسماعت 26 فروری تک ملتوی

شائع February 20, 2024 اپ ڈیٹ February 27, 2024
گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے آرٹیکل 186 کے اسکوپ پر معاونت طلب کی تھی—فائل فوٹو
گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے آرٹیکل 186 کے اسکوپ پر معاونت طلب کی تھی—فائل فوٹو

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس کیس میں اصل سوال یہ ہے کہ کیا عدالتی کارروائی میں طریقہ کار درست اپنایا گیا یا نہیں؟

ڈان نیوز کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے ریفرنس کی سماعت کی، عدالت نے سماعت 26 فروری تک ملتوی کردی۔

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بھی سماعت کے لیے سپریم کورٹ پہنچے تھے۔

سماعت میں سابق جج اسد اللہ چمکنی بھی عدالتی معاون کے طور پر پیش ہوئے، جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ آپ فوجداری قانون کے ماہر ہیں اس لیے آپ کو دوسرے مرحلے میں سنیں گے۔

عدالتی معاون صلاح الدین بھی عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ صلاح الدین صاحب اگر آپ ناراض نہ ہوں تو مخدوم صاحب سینئر ہیں، ہم پہلے انہیں سن لیتے ہیں۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ہمارا اصل فوکس آئینی پہلو کی طرف ہے، مخدوم علی خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ تمیز الدین خان کیس میں سپریم کورٹ نے ایک ویو لیا۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس کیس میں اصل سوال یہ ہے کہ کیا عدالتی کارروائی میں پروسس درست اپنایا گیا یا نہیں؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمارا اختیار سماعت بالکل واضح ہے، 2 مرتبہ نظرثانی نہیں ہو سکتی ہے، ہم اس کیس میں لکیر کیسے کھینچ سکتے ہیں؟

انہوں نے دریافت کیا کہ کیا اس کیس میں تعصب کا سوال ہے یا غلط فیصلہ کرنے کو تسلیم کرنا ہے؟

عدالتی معاون نے دلیل دی کہ ایک جج نے انٹرویو میں کہا کہ ان پر دباؤ تھا جس پر قاضی فائز عیسی نے کہا کہ انہوں نے یہ تو نہیں کہا کہ میں تعصب کا شکار تھا، اگر میں دباؤ برداشت نہیں کر سکتا تو مجھے عدالتی بینچ سے الگ ہو جانا چاہیے، ایک شخص کہہ سکتا کہ کوئی تعصب کا شکار ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ دوسرا یہ رائے نہ رکھے۔

مخدوم علی خان نے جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو سے متعلق دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ تعصب کو ثابت کرنا تقریبا ناممکن ہے۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ ہمارے سامنے جو معاملہ ہے وہ تعصب کا ہے یا سابق جج کے اعتراف کا؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جج کے انٹرویو کا ایک حصہ تعصب کے اعتراف کا ہے۔

قاضی فائز عیسی نے کہا کہ یہ تعصب کا اعتراف کہلائے گا یا غلط کاری کا اعتراف؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ انٹرویو میں دباؤ کی بات کی گئی ہے کہ ان پر دباؤ تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل کوئی جج کہے مجھے بیوی کا دباؤ تھا یہ آرڈر دو ورنہ کوئی اور جگہ دیکھ لو تو یہ کس کیٹیگری میں آئے گا؟

’ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف کیس جب چلا اس وقت ملک میں مارشل لا تھا’

جسٹس منصور علی نے استفسار کیا کہ اصل سوال یہ ہے کہ اب ہم کیسے دروازہ کھول سکتے ہیں؟ کیا ہم آرٹیکل 186 کے تحت اب یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ پروسس غلط تھا، اب ہم اس معاملے میں شواہد کیسے ریکارڈ کر سکتے ہیں؟

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کیا ہم اب انکوائری کر سکتے ہیں؟

جسٹس جمال خان مندوخیل نے بتایا کہ یہ کیس حتمی ہو چکا ہے، کیا ہمیں یہ سوال کسی اپیل میں طے نہیں کرنا چاہیے؟

چیف جسٹس پاکستان نے مزید دریافت کیا کہ کیا ہم اس پہلو کو نظرانداز کر سکتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف کیس جب چلا اس وقت ملک میں مارشل لا تھا اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا اپنا مفاد تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا اس وقت ججز نے پی سی او کے تحت حلف بھی اٹھایا تھا؟ جس پر عدالتی معاون نے جواب دیا کہ جی بالکل۔

قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ ہم آپ سے آئینی پہلو پر زیادہ سننا چاہتے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے دریافت کیا کہ کیا اس کیس میں اختلاف کرنے والوں کو بعد میں ملک نہیں چھوڑنا پڑا؟ جسٹس صفدر شاہ کو ملک چھوڑنا پڑا، مزید کہا کہ پھانسی کے فیصلے سے اختلاف کرنے والوں کا کوئی انٹرویو یا کتاب موجود ہے؟

مخدوم علی خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جسٹس دراب پٹیل کا ایک انٹرویو پی ٹی وی میں موجود ہے، وہ انٹرویو یوٹیوب پر نہیں ہے مگر پی ٹی وی کے پاس ہے۔

مخدوم علی خان نے سہیل وڑائچ کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں مختلف ججز کے انٹرویوز اکٹھے کیے گئے ہیں۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ افتخار احمد کے انٹرویو میں نسیم حسن شاہ نے کیا کہا؟ وہ کہاں ہے کہ مجھ پر فیصلے کے لیے دباؤ تھا؟

مخدوم علی خان نے بتایا کہ وہ اس کیس کے لیے مخصوص نہیں تھا بلکہ ایک مجموعی تناظر میں تھا، نسیم حسن شاہ نے کہا کہ مشتاق صاحب کو اس بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے تھا، نسیم حسن شاہ نے کہا کہ شک کا فائدہ مل سکتا تھا مگر کچھ ہماری کمزوری تھی کچھ یحیٰی بختیار نے ہمیں ناراض کر دیا۔

’وکیل کے کنڈکٹ کی سزا مؤکل کو نہیں ملنی چاہیے‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وکیل پر کیسے مدعا ڈالا جا سکتا ہے؟ ناراض کر دیا تھا تو کیس سننا چھوڑ دیتے یا انصاف کرتے، ناراض ہم بھی کئی بار ہوجاتے ہیں مگر یہ تو نہیں کہ فیصلہ الٹ دیں، وکیل کے کنڈکٹ کی سزا مؤکل کو نہیں ملنی چاہیے۔

قاضی فائز عیسی نے دریافت کیا کہ کیا یہ واحد کیس ہے جس میں ڈائریکٹ ہائیکورٹ نے قتل کیس سنا؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ رپورٹ ہوئے مقدمات میں ایسا کوئی اور کیس نہیں ہے، ویسے شاید ہو۔

مخدوم علی خان نے مزید بتایا کہ دراب پٹیل نے انٹرویو میں کہا تھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دراب پٹیل مگر بدقسمتی سے نظر ثانی متفقہ طور پر خارج کرنے والے بینچ کا حصہ تھے۔

چیف جسٹس نے عدالتی معاون سے مکالمہ کیا کہ آپ کو مزید کتنا وقت درکار ہو گا؟ عدالتی معاون مخدوم علی خان نے بتایا کہ مجھے مزید 30 سے 40 منٹ لگیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 187 کے اختیار کو استعمال کر کے بھٹو کیس کا فیصلہ کر سکتی ہے، بھٹو کیس میں ججز کی جانبداری ثابت کرنے کے لیے جسٹس نسیم حسن، جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس اسلم ریاض کے انٹرویوز موجود ہیں، ججز کی جانبداری ثابت کرنے کے لیے سلیم بیگ اور جنرل (ر) فیض چشتی کی کتاب اور اس وقت کے اٹارنی جنرل کا خط بھی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے دریافت کیا کہ کیا جن صاحبان پر جانبداری کا الزام لگ رہا ہے ان کو سنا نہیں جانا چاہیے؟

بعد ازاں سپریم کورٹ نے ریفرنس پر سماعت 26 فروری تک ملتوی کر دی۔

گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے آرٹیکل 186 کے اسکوپ پر معاونت طلب کی تھی، علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے کیس پر معاونت کے لیے عدالتی معاونین بھی مقرر کیے تھے۔

پس منظر

یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کےخلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا تھا، صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو ہوئی تھی جو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔

تاہم حال ہی میں اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی 12 دسمبر کو 9 رکنی بینچ نے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا آغاز کیا تھا۔

‏سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس 5 سوالات پر مبنی ہے، صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق مطابق تھا؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟

تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟

چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟

جبکہ پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟

کارٹون

کارٹون : 18 دسمبر 2024
کارٹون : 17 دسمبر 2024