روس کی 9ماہ میں سب سے بڑی فتح، یوکرین کے شہر آوڈائیکا پر قبضہ کر لیا
یوکرین میں جاری جنگ میں روس نے گزشتہ 9 ماہ کی سب سے بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے یوکرین کے شہر آوڈائیکا کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق یوکرین کی جانب سے آوڈائیکا سے دستبردار ہونے کے بعد روس کی فوج نے شہر پر مکمل طور پر قبضہ کر لیا تاہم روس کا کہنا ہے کہ اب بھی یوکرین کے کچھ دستے شہر کے کچھ علاقوں میں موجود ہیں۔
مئی 2023 میں بخموت کی فتح کے بعد یہ روس کی دوسری سب سے بڑی کامیابی ہے جہاں روسی صدر ولادمیر پیوٹن کی جانب سے اس جنگ کو شروع کیے دو سال کا عرصہ بھی مکمل ہو گیا ہے۔
روس کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ ہمارے دستوں نے ہزار کلومیٹر کے علاقوں میں 8.6 کلومیٹر پیشقدمی کی اور شہر کے خالی ہونے کے بعد روسی دستے آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔
یوکرین نے کہا ہے کہ ہم نے اپنے دستوں کو بچانے کے لیے وہاں سے بلا لیا ہے کیونکہ ہمیں ڈر تھا کہ ہمارے دستوں کو گھیرے میں لے لیا جائے گا۔
روس کے صدر ولادمیر پیوٹن نے آوڈائیکا پر قبضے کو اہم فتح قرار دیتے ہوئے روسی فوج کو مبارکباد پیش کی۔
روس کی جانب سے یوکرین کی فورسز کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے اور کچلنے کا سلسلہ جاری ہے اور یوکرین کی حالیہ ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے صدر ولادمیر زیلنسکی نے جنگ کی کمان ایک نئے کمانڈر کو سونپ دی ہے۔
کریملن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ملک کے سربراہ کو اس اہم کامیابی اور بڑی فتح پر مبارکباد پیش کی۔
تاہم روس کا کہنا ہے کہ آوڈائیکا میں اب بھی سوویت دور کے کوک پلانٹ میں اب بھی یوکرین کے کچھ دستے موجود ہیں جو ایک دور میں یورپ کا سب سے بڑا پلانٹ تھا اور ڈونباس کے صنعتی علاقے پر مکمل طور پر قابض ہونے کے روس کے منصوبے کی تکمیل کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
روس کی وزارت دفاع کے ترجمان ایگور کوناشنکوف نے کہا کہ علاقے کو شدت پسندوں سے مکمل طور پر پاک کرنے کے لیے اقدامات جاری ہیں اور ہم علاقے اور پلانٹ کے اطراف چھپے ہوئے یوکرین کے دستوں پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ابھی تک یوکرین نے اس پیشرفت کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا لیکن روسی ٹیلی ویژن کی فوٹیج میں روسی فوج کو آوڈائیکا سے یوکرین کے پرچم کو اتارتے اور اپنا جھنڈا لہراتے دیکھا جا سکتا ہے۔
8سال سے مشرقی یوکرین میں جاری تنازع کے بعد فروری 2022 میں پیوٹن نے اپنی فوج کو یوکرین پر چڑھائی کا حکم دیا تھا جس کے ساتھ ہی مکمل جنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔
اس سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ہتھیاروں اور اسلحہ بارود کی کمی کی وجہ سے آوڈائیکا روس کے قبضے میں جا سکتا ہے اور کانگریس سے اس سلسلے میں فوری امدادی پیکج کی منظوری کا مطالبہ کیا تھا۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ کانگریس کی جانب سے کوئی کارروائی نہ کیے جانے اور امدادی پیکج کی عدم منظوری کی وجہ سے یوکرین کے فوجیوں کو راشن اور ہتھیار نہ پہنچ سکے اور اس کی وجہ سے وہ محاذ سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے آوڈائیکا اب روس کے قبضے میں چلا گیا جو اس کی کئی ماہ بعد پہلی بڑی کامیابی ہے۔