برطانیہ: بہو پر ظلم ڈھانے والے پاکستانی خاندان کے 5 افراد کو قید کی سزا
برطانوی شہر ہڈرز فیلڈ میں پاکستانی نژاد برطانوی خاندان کے 5 افراد کو بہو امبرین فاطمہ کو جسمانی نقصان پہنچانے کے جرم میں قید کی سزا سنا دی گئی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے انڈیپنڈنٹ انگلش کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی نژاد برطانوی خاندان کے 5 افراد کو جرم میں مجرم قرار دینے کے بعد جج جسٹس لیمبرٹ نے ان کی سزا کا فیصلہ سنایا۔
ملزمان میں سے کسی نے بھی اپنے دفاع کے لیے عدالت میں ثبوت نہیں دیا، پانچوں ملزمان مجرم پائے گئے ہیں۔
جج نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ امبرین کے شوہر 31 سالہ اصغر شیخ، ان کے والد 55 سالہ خالد شیخ اور ان کی والدہ 52 سالہ شبنم شیخ کو 7 سال اور 9 ماہ قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔
اس کےعلاوہ اصغر شیخ کے بھائی 25 سالہ سکلائن شیخ اور بہن 29 سالہ شگوفہ شیخ کو سزا سناتے ہوئے کہا کہ انہیں وہ فوری طور پر جیل نہیں جائیں گے، اس کے بجائے انہیں دو سال کے لیے کچھ اصولوں پر عمل کرنا ہوگا۔ اگر وہ قوانین پر عمل کرتے ہیں تو سکلائن کو 6 ماہ اور شگوفہ کو 18 ماہ کے لیے جیل نہیں جانا پڑے گا لیکن اگر دونوں 2 سال کے دوران قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو بھائی کو 6 ماہ اور بہن کو 18 ماہ جیل میں گزارنا پڑ سکتے ہیں۔
معاملہ کیا تھا؟
یاد رہے کہ 19 دسمبر 2023 کو امبرین فاطمہ کے شوہر اصغر شیخ (30 سال)، سُسر خالد شیخ (55 سال)، ساس شبنم شیخ (53 سال) اور 29 سالہ بھابھی شگفتہ شیخ کو عدالت نے سماعت کے بعد قصور وار قرار دیا تھا۔
ملزمان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایمبولینس بلانے میں تاخیر کی اور امبرین 3 روز تک بے ہوش رہی، بروقت علاج نہ ہونے کے سبب وہ 8 برس سے نیم بے ہوشی کی حالت میں ہے۔
2014 میں 30 سالہ امبرین فاطمہ اصغر نامی شخص سے ارینج میرج کرکے پاکستان سے برطانیہ چلی گئی تھیں، چند ماہ کے اندر ہی دونوں کے درمیان تعلق میں تناؤ پیدا ہونے کے سبب وہ سماجی طور پر تنہائی کا شکار ہوگئی تھی۔
سسرال کی طرف انہیں زبردستی glimepiride نامی ذیابیطس کی دوا کھلائی گئی جس سے ان کے دماغ کو شدید نقصان پہنچا تھا۔
امبرین کے دائیں کان پر چوٹ اور اس کی کمر پر کاسٹک مادے سے جلنے کے نشانات تھے، یہ انکشافات اس وقت سامنے آئے جب امبرین جولائی 2015 کے آخر تک بہت کمزور ہوگئی تھی، یکم اگست 2015 کو شگفتہ شیخ نے ایمبولینس سروس کو کال کی جس میں بتایا گیا کہ امبرین ٹھیک سے سانس نہیں لے پا رہی ہے، پیرامیڈکس نے اسے بے ہوش حالت میں پایا تھا۔
شروع میں یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ امبرین زندہ نہیں رہیں گی، تاہم جب ہسپتال میں ان کا وینٹی لیٹر بند کر دیا گیا تو وہ خود ہی سانس لینے لگی۔
عدالت کو بتایا گیا کہ وہ اب ایسی حالت میں ہے جہاں وہ اپنے آپ یا اپنے اردگرد کے حالات سے بے خبر ہے اور وہ حرکت نہیں کر سکتی اور نہ ہی اپنے جسم پر کسی درد کا جواب دے سکتی ہے۔
استغاثہ کی طرف سے کہا گیا تھا کہ وہ صرف ایک فیڈنگ ٹیوب کی مدد سے زندہ رہتی ہے اور ایسی ہی حالت میں ان کا انتقال ہوجائے گا، البتہ ان کے زندہ رہنے سے متعلق کچھ کہا نہیں جاسکتا۔