پی آئی اے کی نجکاری کا عمل ’98 فیصد‘ مکمل ہو چکا، نگران حکومت
نگران وفاقی حکومت نئی حکومت کے لیے خسارے میں چلنے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کو فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد نے بتایا کہ ہمارا کام 98 فیصد ہو چکا ہے، بقیہ 2 فیصد کاموں کی منظوری کابینہ سے لینی ہے۔
فواد حسن فواد نے کہا کہ ٹرانزیکشن ایڈوائزر ارنسٹ اینڈ ینگ کی طرف سے تیار کردہ پلان کو نگران حکومت کی مدت ختم ہونے سے قبل منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کابینہ یہ فیصلہ بھی کرے گی کہ پی آئی اے کو بذریعہ ٹینڈر بیچنا ہے یا حکومت سے حکومت کے معاہدے کے ذریعے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم نے صرف 4 مہینوں میں وہ کیا ہے جو ماضی کی حکومتیں ایک دہائی سے کرنے کی کوشش کر رہی تھیں، انہوں نے کہا کہ اب پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔
نجکاری کے عمل سے قریب دو ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ ارنسٹ اینڈ ینگ کی 1100 صفحات کی رپورٹ کے تحت ایئر لائن کے قرضوں کو ایک علیحدہ ادارے کو دینے کے بعد خریداروں کو مکمل انتظامی کنٹرول کے ساتھ 51 فیصد حصص کی پیشکش بھی کی جائے گی۔
فواد حسن فواد نے فروخت کے حوالے سے خاص تفصیلات نہیں بتائیں، لیکن اس منصوبے میں پی آئی اے کے قرضوں کو ایک علیحدہ ادارے میں منتقل کرنے کے منصوبے کی تصدیق کی۔
تاہم ارنسٹ اینڈ ینگ نے اس بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا ہے۔
پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے کہا کہ ایئرلائن نجکاری کے عمل میں معاونت کر رہی ہے اور ٹرانزیکشن ایڈوائزر کو مکمل تعاون فراہم کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان نے سنگین معاشی بحران کے پیش نظر گزشتہ سال جون میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ 3 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ معاہدہ کرتے ہوئے خسارے میں جانے والے سرکاری اداروں کی بحالی کا فیصلہ کیا تھا۔
حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ آئی ایم ایف معاہدے پر دستخط کے چند ہفتے بعد ہی کرلیا تھا۔
بعد ازاں 8 اگست کو منصب سنبھالنے والی نگران حکومت کو سبکدوش ہونے والی پارلیمان نے آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ بجٹ کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کا اختیار دیا تھا۔
گزشتہ سال نگران حکومت نے 12 اکتوبر کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کی نجکاری کرنے کی منظوری دی تھی۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال جون تک پی آئی اے پر 785 ارب روپے (2.81 ارب ڈالر) کے واجبات تھے اور 713 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔
اگر موجودہ مالیاتی بیل آؤٹ پروگرام کے مارچ میں ختم ہونے کے بعد اگلی حکومت عالمی مالیاتی ادارے کے پاس واپس جاتی ہے تو نجکاری پر پیش رفت ایک اہم مسئلہ ہوگی۔
نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے گزشتہ سال صحافیوں کو بتایا تھا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی آئی ایم ایف کے پروگراموں میں رہنا پڑے گا۔