نواز شریف کی واپسی۔۔۔
30 سال سے بھی زائد عرصے قبل، اقتدار سے اپنی پہلی بے دخلی کے بعد سے نواز شریف کی جب بھی وطن واپسی ہوئی ہے، ان میں ان کی تازہ ترین واپسی کے امکانات سب سے کم تھے۔ حالانکہ اس مرحلے پر یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن 8 فروری کے انتخابات کے بعد نواز شریف کے اگلی حکومت بنانے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اگر وہ خود وزیر اعظم نہیں بھی بنتے تو بھی امکانات یہی ہیں کہ جو بھی یہ عہدہ سنبھالے گا اسے ان کی آشیرباد حاصل ہوگی۔
کئی مہینوں سے حالات رفتہ رفتہ ان کے حق میں تبدیل ہورہے ہیں لیکن آنے والے ہفتوں میں اس میں تیزی نظر آئے گی۔ اس کا آغاز تقریباً پانچ سال کی جلاوطنی کے بعد ان کی پاکستان واپسی کی تاریخ کے اعلان سے ہوا۔ اس کے بعد لاہور میں ان کی واپسی اور پہلی ریلی کا دن آیا، جس میں انہوں نے مہنگائی اور بے روزگاری سے تباہ حال ملک کو ترقی دینے کے لیے سب سے زیادہ موزوں وزیر اعظم کے طور پر خود کو پیش کیا۔
اس کے بعد پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم، انتخابی دوڑ میں شامل دیگر پارٹیوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ، اور آنے والے انتخابی مقابلے کے لیے تیاری کا مختصر وقفہ آیا۔ پھر جب سپریم کورٹ نے ان کے مرکزی حریف، پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان چھین لیا تو انتخابات ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں آخری شکوک و شبہات بھی دور ہوگئے اور انتخابی مہم شروع ہوگئی۔
ان کی انتخابی مہم کی تقاریر سنیں تو آپ کو ایک حکمت عملی نظر آئے گی۔ وہ اپنے جلسوں میں دو کام کر رہے ہیں۔ پہلا کام ووٹروں کے ساتھ جڑنا اور دوسرا ان معروف افراد یا خاندانوں پر توجہ دینا جو دیہی یا نیم شہری حلقوں کو چلاتے ہیں جن پر نواز شریف نے اب تک اپنی مہم کو مرکوز کیا ہوا ہے۔ نواز شریف ووٹرز سے اس قسم کے سوالات پوچھ رہے ہیں کہ ’2017ء میں جب میں نے اقتدار چھوڑا تو ایک روٹی کتنے کی تھی؟ بجلی کا ایک یونٹ کتنے کا تھا؟ آپ ایک کلو چینی کتنے میں خریدتے تھے؟ یوریا کھاد کا ایک تھیلے کتنے کا تھا؟‘
مصنوعات کی یہ فہرست شہری یا دیہی حلقوں کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے اور ہر کی چیز کی ماضی کی قیمت پوچھنے کے بعد وہ حاضرین سے معلوم کرتے ہیں کہ وہ آج اس کی کتنی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ پھر وہ پوچھتے ہیں کہ ’تمہارے ساتھ یہ کس نے کیا؟‘، ’یہ ظلم کس نے کیا؟‘ ’تم جا کر اس سے پوچھو، جس نے بھی یہ کیا کہ اس نے تمہارے ساتھ ایسا کیوں کیا؟‘
یہ ایک مکروہ پیغام ہے۔ 2017ء سے اب تک ملک میں مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کی وجوہات پر بحث کی جاسکتی ہے، میں پہلے بھی متعدد بار اس پر اپنے خیالات لکھ چکا ہوں۔ انتخابی مہم کے مقاصد کے لیے ان وجوہات کو جاننا ضروری نہیں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ یہ ہوا ہے۔ 2017ء کو نقطہ آغاز بنا کر وہ اس حقیقت پر پردہ ڈال سکتے ہیں کہ اس مہنگائی میں بڑا اضافہ اس دور میں ہوا جب شہباز شریف وزیراعظم تھے۔
بیانیے کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نواز شریف نے اپنی انتخابی مہم کی ایک تقریب میں کہا کہ ’میں نے آپ کو بہت یاد کیا، میں طویل عرصے تک آپ سے دور رہا اور مجھے وہ سب دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے جو آپ کو میرے دور رہتے ہوئے بھگتنا پڑا‘۔ ان کی مہم کا پیغام اس مشکل کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا ہے جس سے ووٹر سب سے زیادہ متاثر ہیں یعنی اخراجات پورے کرنے میں دشواری۔ مثال کے طور پر ایک چھوٹے سے صنعتی شہر حافظ آباد میں جہاں محنت کش طبقے کی ایک تعداد رہتی ہے نواز شریف نے جلسے میں موجود لوگوں سے کہا کہ ’اگر مجھے 2017ء میں نہ ہٹایا جاتا تو آج حافظ آباد میں بے روزگاری نہ ہوتی!‘۔
سیالکوٹ میں انہوں نے عمران خان کے دور میں 2020ء میں ٹریفک کے لیے کھولی جانے والی موجودہ موٹروے میں موجود تمام خامیوں کی نشاندہی کرنے کے بعد اس شہر کو لاہور سے ملانے والی ایک نئی موٹر وے بنانے کا وعدہ کیا۔ مانسہرہ میں، انہوں نے سی پیک ایم ایل ون منصوبے کے تحت ریل روڈ کی بحالی مکمل ہونے کے بعد ایک ریلوے اسٹاپ کا وعدہ کیا، ایم ایل ون 8 ارب ڈالر سے زائد کا منصوبہ ہے۔ وہاڑی میں انہوں نے یہ کہہ کر ایک میڈیکل کالج بنانے کا اعلان کیا کہ تہمینہ دولتانہ نے اپنے حلقے کے لیے اس کا تقاضا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ٹھیک ہے، ہم تمہیں میڈیکل کالج دیں گے، لیکن پہلے ووٹ حاصل کرو اور جیتو‘۔
یہ بات ہمیں ان کی حکمت عملی کے دوسرے نکتے پر لے آتی ہے یعنی اس طاقت کا فائدہ اٹھانا جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ ان کے ہاتھ آنے والی ہے اور پھر اس کا استعمال پنجاب کے بااثر افراد اور خاندانوں کو راغب کرنے کے لیے کرنا اور اس صوبے کے غالب سیاسی خاندانوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوبارہ استوار کرنا۔ دیہی اور چھوٹے شہروں کے حلقوں میں سیاسی خاندان اہم ہوتے ہیں۔ نواز شریف یہ بات کسی اور سے بہتر جانتے ہیں اور انہیں اور ان کے ساتھیوں کو اس بات کا تفصیلی علم ہے کہ کون، کہاں کتنی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اب یہ پیغام دے رہے ہیں لوگ اب ان کی ٹرین میں سوار ہوجائیں۔
ان کے منشور میں بڑے بڑے معاشی وعدے کیے گئے ہیں، جیسے جی ڈی پی کی شرح نمو کو 6 فیصد تک بحال کرنا، گردشی قرضے کو ختم کرنا، وغیرہ۔ تاہم، ابھی کے لیے، انہوں نے خود کو انتخابی مہم کے وعدوں، ووٹروں اور سیاسی خاندانوں کے ساتھ جڑنے اور ان کی زندگیوں کو درپیش معاشی مسائل کے حل کا وعدہ کرنے میں مصروف رکھا ہوا ہے۔
آگے انتخابات ہوں گے، اس کے بعد نئی پارلیمنٹ کا اجلاس طلب ہوگا، صدر کی جانب سے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت کو اپنی اکثریت بنانے کی دعوت دی جائے گی، قائد ایوان کا انتخاب ہوگا اور وفاقی کابینہ کی تقرری ہوگی۔ نواز شریف کی جلاوطنی سے واپسی کی خبر آنے سے کابینہ کی تقرری تک نو ماہ کے قریب کا عرصہ گزر چکا ہوگا۔ عمران خان کی پریشانیاں کئی گنا بڑھ جائیں گی اور وہ مقدمات، سزاؤں، اپیلوں، نااہلی، انحراف، گرفتاریوں، لیکس وغیرہ کے تلے دب جائیں گی۔
آہستہ آہستہ ہوا کا رخ بدل رہا ہے۔ نواز شریف واپس آچکے ہیں اور اب اقتدار میں اپنی پوزیشن مضبوط کریں گے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وہ اتنے وسائل تلاش کرپائیں گے کہ وہ اپنے وعدوں کا نصف بھی پورا کرسکیں؟ ترقی اور نمو کی بحالی پر ان کی توجہ کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کے ساتھ ان کی وابستگی کچھ پیچیدہ ہو جائے گی۔ نواز شریف شاید واپس آگئے ہوں، لیکن ترقی اور روزگار کے ساتھ شاید ایسا نہ ہو۔
اس تحریر کو انگزیری میں پڑھیے۔