• KHI: Fajr 5:50am Sunrise 7:12am
  • LHR: Fajr 5:30am Sunrise 6:57am
  • ISB: Fajr 5:39am Sunrise 7:08am
  • KHI: Fajr 5:50am Sunrise 7:12am
  • LHR: Fajr 5:30am Sunrise 6:57am
  • ISB: Fajr 5:39am Sunrise 7:08am

توشہ خانہ ریفرنس: عمران خان اور بشریٰ بی بی کےخلاف گواہان کے بیانات قلمبند

شائع January 29, 2024
—فائل فوٹو: اے ایف پی
—فائل فوٹو: اے ایف پی

سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں استغاثہ کے تمام گواہان کے بیانات قلمبند کر لیے گئے ہیں۔

ڈان نیوز کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اڈیالہ جیل راولپنڈی میں مقدمے کی سماعت کی، استغاثہ کے 20 میں سے 16 گواہان نے بیانات ریکارڈ کرائے جبکہ باقی 4 گواہان کو غیر متعلقہ ہونے پر ترک کردیا گیا۔

دوران سماعت ملزمان کی جانب سے نئے وکیل ظہیر عباس چوہدری نے وکالت نامہ جمع کرایا۔

وکیل ظہیر عباس نے عدالت سے استدعا کی کہ مجھے کیس کی نقول فراہم کی جائیں، تیاری کے لیے وقت دیا جائے اور سماعت ملتوی کی جائے۔

اس پر استغاثہ نے ظہیر عباس کی وقت دینے کی استدعا کی مخالفت کردی، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزمان کے دیگر مرکزی وکلا موجود ہیں، وہ جراح کر سکتے ہیں، شہباز کھوسہ بھی عدالت میں موجود ہیں، وہ جراح کر سکتے ہیں، 10 وکلا کے وکالت نامے جمع ہوچکے ہیں یہاں جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے ملزمان بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کا استغاثہ کے گواہان پر حق جراح ختم کرتے ہوئے کل ملزمان کو 342 کے بیان کے لیے طلب کرلیا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال 5 اگست کو اسلام آباد کی عدالت نے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں کرپشن کا مجرم قرار دیتے ہوئے 3 سال قید کی سزا سنائی تھی، فیصلہ آنے کے فوراً بعد انہیں پنجاب پولیس نے لاہور میں واقع زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا تھا۔

بعد ازاں 29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد اٹک جیل میں قید عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

تاہم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سابق وزیر اعظم کو جیل میں ہی قید رکھنے کا حکم دے دیا تھا۔

6 دسمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ ریفرنس میں نااہلی کے خلاف اپیل واپس لینے کی درخواست مسترد کردی تھی۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا، جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔

سابق حکمراں اتحاد پی ڈی ایم کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 19 دسمبر 2024
کارٹون : 18 دسمبر 2024