ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس: اسد قیصر کی نظر ثانی درخواست خارج
سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس میں سابق اسپیکر اسد قیصر کی نظر ثانی درخواست خارج کردی ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق بانی پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر اسپیکر رولنگ کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کی، اس بینچ میں جسٹس منیب اختر،جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال مندوخیل شامل تھے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے عدالت میں درخواست واپس لینے کی استدعا کر دی۔
بعد ازاں جسٹس منصور علی شاہ نے اسد قیصر کے وکیل نعیم بخاری سے دریافت کیا کہ بخاری صاحب آپ اکیلے رہ گئے ہیں، کیا آپ کیس چلانا چاہتے ہیں؟
وکیل نعیم بخاری نے جواب دیا کہ تو کیا میں بھی چلا جاؤں؟ ان کے اس جواب پر کمرہ عدالت میں قہقہ لگ گئے، ان کا مزید کہنا تھا کہ لوگ اکثر میری حس مزاح کو غلط سمجھ لیتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میں نہیں سمجھوں گا، وکیل نے مزید بتایا کہ لوگ تو اب مجھے جنازوں پر بھی نہیں بلاتے، کہتے ہیں کہیں مردہ زندہ ہو کر لطیفہ سنانے کا نا کہہ دے۔
اس کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے نعیم بخاری سے دریافت کیا کہ آپ اب کیا چاہتے ہیں؟وکیل نعیم بخاری نے بتایا کہ میں چاہتا ہوں ڈپٹی اسپیکر رولنگ کا عدالتی فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے، عدالت پارلیمان کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی ہے۔
وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ جسٹس منیب اختر کے سوالات خوش آئند لیکن خوفناک ہوتے ہیں، جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ مجھے سوال پوچھ تو لینے دیں آپ پہلے ہی ڈرا رہے ہیں۔
’اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے اختیارات عام نہیں ہوتے‘
پھر جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے اختیارات عام نہیں ہوتے، وہ محض افسران نہیں ہوتے ہیں اور جسٹس منصور علی شاہ نے دریافت کیا کہ وہ قانون دکھا دیں جس کے تحت اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کو اختیارات دیے گئے ہیں۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس کے فیصلے کے خلاف اسد قیصر کی نظر ثانی درخواست خارج کردی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ بانی پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر اسپیکر رولنگ کیس کی نظرثانی کا کوئی گراؤنڈ نہیں بنتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ غلط فہمی پیدا کی گئی کہ عدلیہ پارلیمانی امور میں مداخلت نہیں کر سکتی، جہاں آئینی سوال ہو وہاں سپریم کورٹ پارلیمانی معاملہ دیکھ سکتی ہے۔
وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 69 کی ذیلی شق 2 کے تحت اسپیکر ذاتی اقدام کا جوابدہ نہیں، اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہم نظرثانی کیس سن رہے ہیں، یہ نقطہ کسی آزادانہ کیس میں اٹھائیں۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ اور صدر مملکت کے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔
خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن نے 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی جس پر تاخیر کے بعد 3 اپریل کو ووٹنگ متوقع تھی۔
تاہم ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی سربراہی میں ہونے والے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہیں وقفہ سوالات میں بات کرتے ہوئے وزیر قانون فواد چوہدری کی جانب سے قرارداد پر سنگین اعتراضات اٹھائے گئے۔
فواد چوہدری نے اپوزیشن کی پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کو بیرونِ ملک سے پاکستان میں حکومت تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔
جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک کو آئین و قانون کے منافی قراد دیتے ہوئے مسترد کردیا اور اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا۔
اسمبلی تحلیل
ایوانِ زیریں کا اجلاس ملتوی ہونے کے فوراً بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز بھجوانے کا اعلان کیا اور قوم کو نئے انتخابات کی تیاری کرنے کی ہدایت کی۔
وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اسپیکر نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے جو فیصلہ کیا اس کے بعد میں صدر مملکت کو تجویز بھیج دی ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کریں ہم جمہوری طریقے سے عوام میں جائیں اور عوام فیصلہ کرے کہ وہ کس کو چاہتے ہیں۔
بعدازاں صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 58 (1) اور 48 (1) کے تحت وزیراعظم کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے تجویز منظور کرلی تھی۔
ایک ہی روز کے دوران صورتحال میں تیزی سے رونما ہونے والی ڈرامائی تبدیلیوں کے بعد رات گئے صدر مملکت عارف علوی نے ایک فرمان جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ قومی اسمبلی، کابینہ کے تحلیل اور وزیر اعظم کی سبکدوشی کے بعد نگراں وزیر اعظم کے تقرر تک عمران خان اس عہدے پر کام کرتے رہیں گے۔
سپریم کورٹ از خود نوٹس
قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد بغیر ووٹنگ مسترد کیے جانے کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ازخود نوٹس لیا تھا۔
از خود نوٹس کے علاوہ مختلف پارٹیوں کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں جن پر سماعت کے لیے رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔
انتدائی سماعت میں سپریم کورٹ نے تمام سیاسی قوتوں اور ریاستی اداروں کو آئینی حدود کے مطابق کردار ادا کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم اور صدر کے تمام احکامات سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ کوئی حکومتی ادارہ غیر آئینی حرکت نہیں کرے گا، تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتی ادارے اس صورت حال سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ اور صدر مملکت کے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔
9 اپریل کو پی ٹی آئی نے ڈپٹی اسپیکر کیس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر کردی تھی۔