سپریم کورٹ: فیض آباد دھرنا کمیشن کو رپورٹ جمع کرانے کیلئے مزید ایک ماہ کی مہلت
سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کو رپورٹ جمع کرانے کے لیے مزید ایک ماہ کی مہلت دے دی۔
’ڈان نیوز‘ کے مطابق وفاقی حکومت کی فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی مدت میں توسیع کی درخواست پر آج سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ سماعت کی۔
اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے، دوران سماعت الیکشن کمیشن نے فیاض دھرنا فیصلے پر عملدرآمد رپورٹ پیش کر دی، دھرنا کیس کے ٹی او آر میں تبدیلی کا نوٹیفکیشن بھی عدالت میں پیش کردیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کا آگاہ کیا کہ کمیشن کو مزید ایک ماہ کی توسیع دی گئی ہے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ دھرنا کمیشن کا کام کب مکمل ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فیض آباد دھرنا کمیشن 14 فروری کو کام مکمل کرے گا۔
اس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ٹھیک ہے، کمیشن اپنا کام کرے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ الیکشن کمیشن نے 11 والیمز پر مشتمل عملدرآمد رپورٹ سربمہر لفافے میں جمع کرائی، یہ رپورٹ یکم نومبر 2023 کے حکم کے تناظر میں جمع کرائی گئی ہے، رپورٹ کا جائزہ لے کر مناسب حکم جاری کیا جائے گا۔
عدالت کی جانب سے مزید ریمارکس دیے گئے کہ فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی کارروائی مقررہ 2 ماہ میں مکمل نہیں ہوسکی، اٹارنی جنرل کے مطابق کمیشن 14 فروری تک تحقیقات مکمل کر لے گا۔
دریں اثنا سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کمیشن سے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ مقدمہ کی آئندہ سماعت ایک ماہ بعد ہوگی۔
یاد رہے کہ جنوری کے تیسرے ہفتے میں انکوائری کمیشن نے رپورٹ فائنل کر کے سپریم کورٹ میں جمع کرانی تھی، وفاقی حکومت نے مقرر وقت میں توسیع کے لیے سپریم کورٹ سے براہ راست رجوع کیا تھا۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کی دی گئی تاریخ پر فیض آباد کمیشن رپورٹ کو حتمی شکل نہیں دے سکتا، انکوائری کمیشن کی مدت میں توسیع کی جائے۔
واضح رہے کہ 15 نومبر کو سپریم کورٹ میں فیض آباد میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے 2017 کے دھرنے سے متعلق اس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے عدالت عظمیٰ کو بتایا تھا کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے حکومت نے کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔
فیض آباد دھرنا
یاد رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت ٹی ایل پی نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا تھا۔
حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا تھا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
اس دھرنے کے نتیجے میں وفاقی دارالحکومت میں نظام زندگی متاثر ہوگیا تھا جبکہ آپریشن کے بعد مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔
بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فیض آباد دھرنے کا معاملہ زیر بحث آنے پر اس پر نوٹس لیا تھا اور متعلقہ اداروں سے جواب مانگا تھا۔
حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ کمیشن میں ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ، 2 ریٹائرڈ سابق آئی جیز طاہر عالم خان اور اختر شاہ شامل ہیں۔
ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو موصول نوٹی فکیشن کے ٹی او آرز کے مطابق کمیشن کو فیض آباد دھرنا اور اس کے بعد ہونے والے واقعات کے لیے ٹی ایل پی کو فراہم کی گئی غیر قانونی مالی یا دیگر معاونت کی انکوائری کا کام سونپا گیا۔