جج تنقید کا اثر لے گا تو حلف کی خلاف ورزی کرے گا، جسٹس اطہرمن اللہ
سپریم کورٹ کے جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا ہے کہ جج کو آزاد ہونا چاہیے، جج پر جتنی تنقید ہو وہ اثر نہ لے، کوئی جج تنقید کا اثر لے گا تو وہ حلف کی خلاف ورزی کرے گا۔
سپریم کورٹ میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ پاکستان کی آدھی تاریخ ڈکٹیٹرزشپ میں گزری، آغاز سے آزادی اظہار رائے پر قدغنیں لگیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈکٹیٹرشپ میں آزادی اظہار رائے ممکن نہیں، اظہار رائے کے لیے صحافیوں کا کلیدی کردار رہا، کورٹ رپورٹرز سے بہت کچھ سیکھا ہے۔
انہوں نے مزید کہیا کہا کہ جج بنا تو پہلا کیس ضمانت کا آیا، بحیثیت جج ہم اپنی کوئی چیز چھپا نہیں سکتے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جج کو آزاد ہونا چاہیے، جج پر جتنی تنقید ہو وہ اثر نہ لے، کوئی جج تنقید کا اثر لے گا تو وہ حلف کی خلاف ورزی کرےگا، عدلیہ کو گھبرانا نہیں چاہیے، نہ خائف ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کا اثر ججز پر نہیں ہونا چاہیے، بحیثیت جج ہم پبلک پراپرٹی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ پر تنقید 2 قسم کی ہوتی ہے، ایک وہ تنقید کہ جب الزام لگایا جاتا ہے کہ کوئی دانستہ فیصلے ہو رہےہیں، ایک وہ تنقید ہے جسے میں پسند نہیں کرتا کہ ریلیف کیوں ملا، تنقید ہر کوئی کرے لیکن عدلیہ پر اعتماد بھی کرے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اظہار رائے بہت بڑی چیز ہے، اسے دبانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، ریاستیں اظہار رائے کو قابو نہیں کرسکتیں۔
انہوں نے کہا کہ 1971 میں مغربی پاکستان کے لوگوں کو مختلف تصویر دکھائی گئی، 75 سال تک سب کو پتا تھا سچ کیا ہے لیکن اسے دبایا گیا، ہم سچ کو دباتے دباتے کہاں پہنچ گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وقت کے ساتھ سچائی خود سامنے آتی ہے، ہمیں اپنے آپ سے سوال پوچھنا چاہیے کہ کہاں جا رہے ہیں، ہم مرضی کے فیصلے، مرضی کی گفتگو چاہتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہمیں اپنی تاریخ سے سیکھنا ہوگا، اظہار رائے پہچانا جاتا تو ملک دولخت نہ ہوتا، نہ لیڈر پھانسی چڑھتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حل صرف آئین پر عمل میں ہی ہے، آئین پر عمل کرکے ہم عظیم قوم بن سکتے ہیں۔