صدر مملکت نے سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن کا استعفیٰ منظور کرلیا
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن کا استعفیٰ منظورکر لیا۔
ڈان نیوز کے مطابق صدر مملکت نے جسٹس اعجاز الاحسن کا استعفیٰ وزیراعظم کی ایڈوائس پر منظور کیا، جسٹس اعجاز الاحسن نے آئین کے آرٹیکل 179 اور 206 (ایک ) کے تحت استعفیٰ دیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی استعفیٰ دے دیا تھا۔
ڈان نیوز کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو بھجوایا تھا۔
صدر کو بھیجے گئے استعفے میں جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا تھا کہ ’میں اب سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے طور پر کام نہیں کرنا چاہتا۔‘
انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے آئین کے آرٹیکل 206 (1) کے تحت استعفیٰ دیا ہے جس کا اطلاق فوری طور پر ہوگا، خط میں استعفے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن، سپریم کورٹ کی سنیارٹی لسٹ میں تیسرے سینئر ترین جج تھے اور انہیں رواں سال اکتوبر میں اگلا چیف جسٹس بننا تھا۔
سنیارٹی لسٹ کے دوسرے سینئر ترین جج جسٹس سردار طارق مسعود 10 مارچ 2024 کو ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن مستعفی جسٹس مظاہر نقوی کو جوڈیشل کونسل کے شوکاز نوٹس کے بھی مخالف تھے اور سپریم جوڈیشل کونسل کی آج کی کارروائی میں بھی شریک نہیں ہوئے تھے۔
جسٹس اعجاز الاحسن، شریف خاندان کےخلاف نیب ریفرنسز میں نگران جج بھی تھے، وہ شہریوں کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دینے والے 5 رکنی بینچ کے سربراہ رہے جبکہ شاہ زیب قتل کیس کے ملزمان کوبری کرنے والے بینچ کے سربراہ بھی تھے۔
جسٹس اعجاز کے استعفے، جسٹس سردار طارق کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس منصور سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ہوں گے اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی 25 اکتوبر 2024 کو ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس بن جائیں گے۔
اس کے ساتھ ہی سپریم جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی اہم تبدیلیاں ہوگئی ہیں اور جسٹس منصور علی شاہ سپریم جوڈیشل کونسل جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی جوڈیشل کمیشن کا حصہ بن گئے ہیں۔
واضح رہے کہ ایک روز قبل ہی ’مس کنڈکٹ‘ کی شکایات کا سامنے کرنے والے جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے استعفیٰ دے دیا تھا۔
صدر مملکت کو ارسال کردہ استعفے میں انہوں نے کہا تھا کہ پہلے لاہور ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے طور پر تعینات ہونا اور خدمات انجام دینا اعزاز کی بات ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ عوامی معلومات اور کسی حد تک عوامی ریکارڈ کا معاملہ ہونے کی وجہ سے ایسے حالات میں میرے لیے اب سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے طور پر خدمات جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔
اپنے استعفے میں انہوں نے لکھا کہ ’ڈیو پروسس‘ کی سوچ بھی اس فیصلے پر مجبور کرتی ہے، اس لیے میں آج سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے عہدے سے مستعفی ہو رہا ہوں۔
سپریم کورٹ کے مستعفی ہونے والے جج نے اپنے اوپر عائد کردہ الزامات کو مسترد کیا تھا۔